Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَقَالُوۡۤا اِنۡ نَّـتَّبِعِ الۡهُدٰى مَعَكَ نُـتَخَطَّفۡ مِنۡ اَرۡضِنَا ؕ اَوَلَمۡ نُمَكِّنۡ لَّهُمۡ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجۡبٰٓى اِلَيۡهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَىۡءٍ رِّزۡقًا مِّنۡ لَّدُنَّا وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَهُمۡ لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿57﴾
کہنے لگے اگر ہم آپ کے ساتھ ہو کر ہدایت کے تابعدار بن جائیں تو ہم تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے انہیں امن و امان اور حرمت والے حرم میں جگہ نہیں دی؟ جہاں تمام چیزوں کے پھل کھچےچلے آتے ہیں جو ہمارے پاس بطور رزق کے ہیں لیکن ان میں سے اکثر کچھ نہیں جانتے ۔
و قالوا ان نتبع الهدى معك نتخطف من ارضنا او لم نمكن لهم حرما امنا يجبى اليه ثمرت كل شيء رزقا من لدنا و لكن اكثرهم لا يعلمون
And they say, "If we were to follow the guidance with you, we would be swept from our land." Have we not established for them a safe sanctuary to which are brought the fruits of all things as provision from Us? But most of them do not know.
Kehney lagay kay agar hum aap kay sath hoker hidayat kay tabey daar bann jayen to hum to apnay mulk say uchak liye jayen kiya hum ney unehn aman-o-amaan aur hurmat walay haram mein jagah nahi di? Jahan tamam cheezon kay phal khinchay chalay aatay hain jo humaray pass bator rizk kay hain lekin inn mein say aksar kuch nahi jantay.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : اگر ہم آپ کے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں گے تو ہمیں اپنی زمین سے کوئی اچک کرلے جائے گا ۔ ( ٣٣ ) بھلا کیا ہم نے ان کو اس حرم میں جگہ نہیں دے رکھی جو اتنا پر امن ہے کہ ہر قسم کے پھل اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں ، جو خاص ہماری طرف سے دیا ہوا رزق ہے؟ لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔
اور کہتے ہیں اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی پیروی کریں تو لوگ ہمارے ملک سے ہمیں اچک لے جائیں گے ( ف۱٤۳ ) کیا ہم نے انھیں جگہ نہ دی امان والی حرم میں ( ف۱٤٤ ) جس کی طرف ہر چیز کے پھل لائے جاتے ہیں ہمارے پاس کی روزی لیکن ان میں اکثر کو علم نہیں ( ف۱٤۵ )
وہ کہتے ہیں ” اگر ہم تمہارے ساتھ اس ہدایت کی پیروی اختیار کرلیں تو اپنی زمین سے اچک لیے جائیں گے ۔ ”80 کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک پر امن حرم کو ان کے لیے جائے قیام بنا دیا جس کی طرف ہر طرح کے ثمرات کھچے چلے آتے ہیں ، ہماری طرف سے رزق کے طور پر؟ مگر ان میں سے اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ۔ 81
اور ( قدر ناشناس ) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی معیّت میں ہدایت کی پیروی کر لیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے ۔ کیا ہم نے انہیں ( اس ) امن والے حرم ( شہرِ مکہ جو آپ ہی کا وطن ہے ) میں نہیں بسایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر ( دنیا کی ہر سمت سے ) ہر جنس کے پھل پہنچائے جاتے ہیں ، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے ( کہ یہ سب کچھ کس کے صدقے سے ہو رہا ہے )
سورة القصص حاشیہ نمبر : 80 یہ وہ بات ہے جو کفار قریش اسلام قبول نہ کرنے کے لیے عذر کے طور پر پیش کرتے تھے ، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے کفر و انکار کا سب سے اہم بنیادی سبب یہی تھا ۔ اس بات کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ تاریخی طور پر اس زمانے میں قریش کی پوزیشن کیا تھی جس پر ضرب پڑنے کا انہیں اندیشہ تھا ۔ قریش کو ابتداً جس چیز نے عرب میں اہمیت دی وہ یہ تھی کہ ان کا حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہونا انساب عرب کی رو سے بالکل ثابت تھا ، اور اس بنا پر ان کا خاندان عربوں کی نگاہ میں پیرزادوں کا خاندان تھا ، پھر جب قصی بن کلاب کے حسن تدبیر سے یہ لوگ کعبہ کے متولی ہوگئے اور مکہ ان کا مسکن بن گیا تو ان کی اہمیت پہلے سے بہت زیادہ ہوگئی ، اس لیے کہ اب وہ عرب کے سب سے بڑے تیرتھ کے مجاور تھے ، تمام قبائل عرب میں ان کو مذہبی پیشوائی کا مقام حاصل تھا ، اور حج کی وجہ سے عرب کا کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جو ان سے تعلقات نہ رکھتا ہو ، اس مرکزی حیثیت سے فائدہ اٹھا کر قریش نے بتدریج تجارتی ترقی شروع کی اور خوشی قسمی سے روم و ایران کی سیاسی کشمکش نے ان کو بین الاقوامی تجارت میں ایک اہم مقام عطا کردیا ، اس زمانہ میں روم و یونان اور مصر و شام کی جتنی تجارت بھی چین ، ، ہندوستان ، انڈونیشیا اور مشرقی افریقہ کے ساتھ تھی ، اس کے سارے ناکے ایران نے روک دیے تھے ، آخری رستہ بحر احمر کا رہ گیا تھا ، سو یمن پر ایران کے قبضہ نے اسے بھی روک دیا ، اس کے بعد کوئی صورت اس تجارت کو جاری رکھنے کے لیے اس کے سوا نہیں رہ گئی تھی کہ عرب کے تاجر ایک طرف رومی مقبوضات کا مال بحر عرب اور خلیج فارس کے بندرگاہوں پر پہنچائیں اور دوسری طرف انہی بندرگاہوں سے مشرقی اموال تجارت لے کر رومی مقبوضات میں پہنچیں ، اس صورت حال نے مکہ کو بین الاقوامی تجارت کا ایک اہم مرکز بنا دیا ۔ اس وقت قریش ہی تھے جنہیں اس کاروبار کا قریب قریب اجارہ حاصل تھا ، لیکن عرب کی طوائف الملوکی کے ماحول میں یہ تجارتی نقل و حرکت اس کے بغیر نہ ہوسکتی تھی کہ تجارتی شاہراہیں جن قبائل کے علاقوں سے گزرتی تھیں ان کے ساتھ قریش کے گہرے تعلقات ہوں ، سرداران قریش اس غرض کے لیے صرف اپنے مذہبی اثر پر اکتفا نہ کرسکتے تھے ، اس کے لیے انہوں نے تمام قبائل کے ساتھ معاہدات کر رکھے تھے ، تجارتی منافع میں سے بھی وہ ان کو حصہ دیتے تھے ، شیوخ قبائل اور بااثر سرداروں کو تحائف و ہدایا سے بھی خوش رکھتے تھے ۔ اور سودی کاروبار کا بھی ایک جال انہوں نے پھیلا رکھا تھا جس میں قریب قریب تمام ہمسایہ قبائل کے تجار اور سردار جکڑے ہوئے تھے ۔ ان حالات میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید اٹھی تو دین آبائی کے تعصب سے بھی بڑھ کر جو چیز قریش کے لیے اس کے خلاف وجہ اشتغال بنی وہ یہ تھی کہ اس دعوت کی بدولت انہیں اپنا مفاد خطرے میں نظر آرہا تھا ، وہ سمجھتے تھے کہ معقول دلائل اور حجتوں سے شرک و بت پرستی غلط اور توحید صحیح بھی ہو تو اس کو چھوڑنا اور اسے قبول کرلینا ہمارے لیے تباہ کن ہے ۔ ایسا کرتے ہی تمام عرب ہمارے خلاف بھڑک اٹھے گا ، ہمیں کعبہ کی تولیت سے بے دخل کردیا جائے گا ۔ بت پرست قبائل کے ساتھ ہمارے وہ تمام معاہدانہ تعلقات ختم ہوجائیں گے جن کی وجہ سے ہمارے تجارتی قافلے رات دن عرب کے مختلف حصوں سے گزرتے ہیں ، اس طرح یہ دین ہمارے مذہبی رسوخ و اثر کا بھی خاتمہ کردے گا اور ہماری معاشی خوشحالی کا بھی ، بلکہ بعید نہیں کہ تمام قبائل عرب ہمیں سرے سے مکہ ہی چھوڑ دینے پر مجبور کردیں ۔ یہاں پہنچ کر دنیا پرستوں کی بے بصیرتی کا عجیب نقشہ انسان کے سامنے آتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار انہیں یقین دلاتے تھے کہ یہ کلمہ جو میں تمہارے سامنے پیش کر رہا ہوں اسے مان لو تو عرب و عجم تمہارے تابع ہوجائٰں گے ۔ ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، صفحہ 316 ۔ 317 ) مگر انہیں اس میں اپنی موت نظر آتی تھی ۔ وہ سمجھتے تھے کہ جو دولت ، اثر ، رسوخ ہمیں آج حاصل ہے یہ بھی ختم ہوجائے گا ۔ ان کو اندیشہ تھا کہ یہ کلمہ قبول کرتے ہی ہم اس سرزمین میں ایسے بے یارومددگار ہوجائیں گے کہ چیل کوے ہماری بوٹیاں نوچ کھائیں گے ، ان کی کوتاہ نظری وہ وقت نہ دیکھ سکتی تھی جب چند ہی سال بعد تمام عرب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت ایک مرکزی سلطنت کا تابع فرمان ہونے والا تھا ، پھر اسی نسل کی زندگی میں ایران ، عراق ، شام ، مصر سب ایک ایک کر کے اس سلطنت کے زیر نگیں ہوجانے والے تھے ، اور اس قول پر ایک صدی گزرنے سے بھی پہلے قریش ہی کے خلفاء سندھ سے لے کر اسپین تک اور قفقاز سے لے کر یمن کے سواحل تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ پر حکمرانی کرنے والے تھے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 81 یہ اللہ تعالی کی طرف سے ان کے عذر کا پہلا جواب ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حرم جس کے امن و امان اور جس کی مرکزیت کی بدولت آج تم اس قابل ہوئے ہو کہ دنیا بھر کا مال تجارت اس وادی غیر ذی زرع میں کھچا چلا آرہا ہے ، کیا اس کو یہ امن اور یہ مرکزیت کا مقام تمہاری کسی تدبیر نے دیا ہے؟ ڈھائی ہزار برس پہلے چٹیل پہاڑوں کے درمیان اس بے آب و گیاہ وادی میں ایک اللہ کا بندہ اپنی بیوی اور ایک شیر خوار بچے کو لے کر آیا تھا ۔ اس نے یہاں پتھر اور گارے کا ایک حجرہ تعمیر کردیا اور پکار دیا کہ اللہ نے اسے حرم بنایا ہے ، آؤ اس گھر کی طرف اور اس کا طواف کرو ، اب یہ اللہ کی دی ہوئی برکت نہیں تو اور کیا ہے کہ 25 صدیوں سے یہ جگہ عرب کا مرکز بنی ہوئی ہے ، سخت بدامنی کے ماحول میں ملک کا صرف یہی گوشہ ایسا ہے جہاں امن میسر ہے ، اس کو عرب کا بچہ بچہ احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ہر سال ہزارہا انسان اس کے طواف کے لیے چلے آتے ہیں ، اسی نعمت کا ثمرہ تو ہے کہ تم عرب کے سردار بنے ہوئے ہو اور دنیا کی تجارت کا ایک بڑا حصہ تمہارے قبضے میں ہے ، اب کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جس خدا نے یہ نعمت تمہیں بخشی ہے ، اس سے منحرف اور باغی ہوکر تو تم پھلو پھولو گے مگر اس کے دین کی پیروی اختیار کرتے ہی برباد ہوجاؤ گے؟