Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
اِنَّكَ لَا تَهۡدِىۡ مَنۡ اَحۡبَبۡتَ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ‌ؕ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ‏ ﴿56﴾
آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالٰی ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے ۔
انك لا تهدي من احببت و لكن الله يهدي من يشاء و هو اعلم بالمهتدين
Indeed, [O Muhammad], you do not guide whom you like, but Allah guides whom He wills. And He is most knowing of the [rightly] guided.
Aap jissay chahayen hidayat nahi ker saktay bulkay Allah Taalaa hi jissay chahaye hidayat kerta hai. Hidayat walon say wohi khoob aagah hai.
۔ ( اے پیغمبر ) حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود اہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے ، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے ، اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے ۔
بیشک یہ نہیں کہ تم جسے اپنی طرف سے چاہو ہدایت کردو ہاں اللہ ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے ، اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت والوں کو ( ف۱٤۲ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے ، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں ۔ 79
حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ ( راہِ ہدایت پر لانا ) چاہتے ہیں اسے راہِ ہدایت پر آپ خود نہیں لاتے بلکہ جسے اللہ چاہتا ہے ( آپ کے ذریعے ) راہِ ہدایت پر چلا دیتا ہے ، اور وہ راہِ ہدایت پانے والوں سے خوب واقف ہے ۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 79 سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ حبشی عیسائیوں کے ایمان و اسلام کا ذکر کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود دراصل کفار مکہ کو شرم دلانا تھا ۔ کہنا یہ تھا کہ بدنصیبو ، ماتم کرو اپنی حالت پر کہ دوسرے کہاں کہاں سے آکر اس نعمت سے مستفید ہورہے ہیں اور تم اس چشمہ فیض سے جو تمہارے اپنے گھر میں بہہ رہا ہے محروم رہے جاتے ہو ، لیکن کہا گیا ہے اس انداز سے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تم چاہتے ہو کہ میری قوم کے لوگ ، میرے بھائی بند ، میرے عزیز و اقارب ، اس آب حیات سے بہرہ مند ہوں ، لیکن تمہارے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ، ہدایت تو اللہ کے اختیار میں ہے ، وہ اس نعمت سے انہی لوگوں کو فیض یاب کرتا ہے جن میں وہ قبول ہدایت کی آمادگی پاتاہے ، تمہارے رشتہ داروں میں اگر یہ جوہر موجود نہ ہو تو انہیں یہ فیض کیسے نصیب ہوسکتا ہے ۔ صحیحین کی روایت ہے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے معاملہ میں نازل ہوئی ہے ، ان کا جب آخرت وقت آیا تو حضور نے اپنی حد تک انتہائی کوشش کی کہ وہ کلمہ لا الہ لا اللہ پر ایمان لے آئیں تاکہ ان کا خاتمہ بالخیر ہو ، مگر انہوں نے ملت عبدالمطلب پر ہی جان دینے کو ترجیح دی ۔ اس پر اللہ تعالی نے فرمایا انک لا تھدی من احببت ۔ لیکن محدثین و مفسرین کا یہ طریقہ معلوم و معروف ہے کہ ایک آیت عہد نبوی کے جس معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے اسے وہ آیت کی شان نزول کے طور پر بیان کرتے ہیں ۔ اس لیے اس روایت اور اسی مضمون کی ان دوسری روایات سے جو ترمذی اور مسند احمد وغیرہ میں حضرات ابو ہریرہ ، ابن عباس ، ابن عمر رضی اللہ عنہم ، وغیرہم سے مروی ہیں ۔ لازما یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ سورہ قصس کی یہ آیت ابو طالب کی وفات کے وقت نازل ہوئی تھی ، بلکہ ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے مضمون کی صداقت سب سےز یادہ اس موقع پر ظاہر ہوئی ، اگرچہ حضور کی دلی خواہش تو ہر بندہ خدا کو راہ راست پر لانے کی تھی ، لیکن سب سے بڑھ کر اگر کسی شخص کا کفر پر خاتمہ حضور کو شاق ہوسکتا تھا اور ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر سب سے زیادہ کسی شخص کی ہدایت کے آپ آرزو مند ہوسکتے تھے تو وہ ابو طالب تھے ، لیکن جب ان کو بھی ہدایت دینے پر آپ قادر نہ ہوئے تو یہ بات بالکل ظاہر ہوگئی کہ کسی کو ہدایت بخشنا اور کسی کو اس سے محروم رکھنا نبی کے بس کی بات نہیں ہے ، یہ معاملہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں اور اللہ کے ہاں سے یہ دولت کسی رشتہ داری و برادری کی بنا پر نہیں بلکہ آدمی کی قبولیت و استعداد اور مخلصانہ صداقت پسندی کی بنا پر عطا ہوتی ہے ۔
ہدایت صرف اللہ کے ذمہ ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا ہدایت قبول کرنا تمہارے قبضے کی چیز نہیں ۔ آپ پر تو صرف پیغام اللہ کے پہنچادینے کا فریضہ ہے ۔ ہدایت کا مالک اللہ ہے وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے چاہے قبول ہدایت کی توفیق بخشتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لیس علیک ھدھم ) تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں وہ چاہے تو ہدایت بخشے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَآ اَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ ١٠٣؁ ) 12- یوسف:103 ) گو تو ہر چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہوتے کہ یہ اللہ کے ہی علم میں ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق ضلالت کون ہے؟ بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کے بارے میں اتری جو آپ کا بہت طرف دار تھا اور ہر موقعہ پر آپ کی مدد کرتا تھا اور آپ کا ساتھ دیتا تھا ۔ اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ محبت بوجہ رشتہ داری کے طبعی تھی شرعا نہ تھی ۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی اور ایمان لانے کی رغبت دلائی لیکن تقدیر کا لکھا اور اللہ کا چاہا غالب آگیا یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑارہا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے انتقال پر اس کے پاس آئے ۔ ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا لا الہ الا اللہ کہو میں اس کی وجہ سے اللہ کے ہاں تیرا سفارشی بن جاؤنگا ۔ ابو جہل اور عبداللہ کہنے لگے ابو طالب کیا تو اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا ۔ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سمجھاتے اور وہ دونوں اسے رو کتے یہاں تک کہ آخر کلمہ اسکی زبان سے یہی نکلتا کہ میں یہ کلمہ نہیں پڑھتا اور میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں ۔ آپ نے فرمایا بہتر میں تیرے لیے رب سے استغفار کرتا رہونگا یہ اور بات ہے کہ میں روک دیا جاؤں اللہ مجھے منع فرمادے ۔ لیکن اسی وقت آیت اتری کہ ( مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ ١١٣؁ ) 9- التوبہ:113 ) یعنی نبی کو اور مومن کو ہرگز یہ بات سزاوار نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں گو وہ ان کے نزدیکی قرابتدار ہی کیوں نہ ہوں اور اسی ابو طالب کے بارے میں آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ 56؀ ) 28- القصص:56 ) بھی نازل ہوئی ( صحیح مسلم وغیرہ ) ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ابو طالب کے مرض الموت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کہ چجا لا الہ الا اللہ کہہ لو میں اس کی گواہی قیامت کے دن دے دونگا تو اس نے کہا اگر مجھے اپنے خاندان قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو اس نے موت کی گھبراہٹ کی وجہ سے یہ کہہ لیا تو میں اسے کہہ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈی کردیتا مگر پھر بھی اسے تیری خوشی کے لئے کہتا ہوں ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کلمہ پڑھنے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے بھتیجے میں تو اپنے بڑوں کی روش پر ہوں ۔ اور اسی بات پر اس کی موت ہوئی کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہے ۔ قیصر کا قاصد جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیصر کا خط خدمت نبوی میں پیش کیا تو آپ نے اسے اپنی گود میں رکھ کر فرمایا تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے کہا تیرج قبیلے کا آدمی ہوں آپ نے فرمایا کہ تیرا قصد ہے کہ تو اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر آجائے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جس قوم کا قاصد ہوں جب تک ان کے پیغام کا جواب انہیں نہ پہنچا دوں ان کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتا ۔ تو آپ نے مسکرا کر اپنے صحابہ کی طرف دیکھ کر یہی آیت پڑھی ۔ مشرکین اپنے ایمان نہ لانے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے تھے کہ ہم آپ کی لائی ہوئی ہدایت کو مان لیں تو ہمیں ڈر لگتا ہے کہ اس دین کے مخالف جو ہمارے چاروں طرف ہیں اور تعداد میں مال میں ہم سے زیادہ ہیں ۔ وہ ہمارے دشمن بن جائیں گے اور ہمیں تکلیفیں پہنچائیں گی اور ہمیں برباد کردیں گے ۔ اللہ فرماتا ہے کہ یہ حیلہ بھی ان کا غلط ہے اللہ نے انہیں حرم محترم میں رکھا ہے جہاں شروع دنیا سے اب تک امن وامان رہا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حالت کفر میں تو یہاں امن سے رہیں اور جب اللہ کے سچے دین کو قبول کریں تو امن اٹھ جائے؟ یہی تو وہ شہر ہے کہ طائف وغیرہ مختلف مقامات سے پھل فروٹ سامان اسباب مال تجارت وغیرہ کی آمد و رفت بکثرت رہتی ہے ۔ تمام چیزیں یہاں کھنچی چلی آتی ہیں اور ہم انہیں بیٹھے بیٹھائے روزیاں پہنچا رہے ہیں لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں ۔ اسی لیے ایسے رکیک حیلے اور بےجا عذر پیش کرتے ہیں مروی ہے کہ یہ کہنے والاحارث بن عامر بن نوفل تھا ۔