Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَقَالَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ وَيۡلَـكُمۡ ثَوَابُ اللّٰهِ خَيۡرٌ لِّمَنۡ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا ۚ وَلَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوۡنَ‏ ﴿80﴾
ذی علم لوگ انہیں سمجھانے لگے کہ افسوس! بہتر چیز تو وہ ہے جو بطور ثواب انہیں ملے گی جو اللہ پر ایمان لائیں اور نیک عمل کریں یہ بات انہی کے دل میں ڈالی جاتی ہے جو صبر وسہارے والے ہوں ۔
و قال الذين اوتوا العلم ويلكم ثواب الله خير لمن امن و عمل صالحا و لا يلقىها الا الصبرون
But those who had been given knowledge said, "Woe to you! The reward of Allah is better for he who believes and does righteousness. And none are granted it except the patient."
Zee ilm log unhen samjhaney lagay kay afsos! Behtar cheez to woh hai jo bator sawab unhen milay gi jo Allah per eman layen aur nek amal keren yeh baat unhi kay dil mein dali jati hai jo sabar-o-sahaar walay hon.
اور جن لوگوں کو ( اللہ کی طرف سے ) علم عطا ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا : تم پر افسوس ہے ( کہ تم ایسا کہہ رہے ہو ) اللہ کا دیا ہوا ثواب اس شخص کے لیے کہیں زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، اور وہ انہی کو ملتا ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں ۔ ( ٤٨ )
اور بولے وہ جنہیں علم دیا گیا ( ف۲۰۳ ) خرابی ہو تمہاری ، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس کے لیے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے ( ف۲۰٤ ) اور یہ انھیں کو ملتا ہے جو صبر والے ہیں ( ف۲۰۵ )
” مگر جو لوگ علم رکھنے والے تھے وہ کہنے لگے ” افسوس تمہارے حال پر ، اللہ کا ثواب بہتر ہے اس شخص کے لیے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرے ، اور یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو ۔ ” 100
اور ( دوسری طرف ) وہ لوگ جنہیں علمِ ( حق ) دیا گیا تھا بول اٹھے: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے ( اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو ، مگر یہ ( اجر و ثواب ) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا
سورة القصص حاشیہ نمبر : 100 یعنی یہ سیرت ، یہ انداز فکر اور یہ ثواب الہی کی بخشش صرف انہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جن میں اتنا تحمل اور اتنی ثابت قدمی موجود ہو کہ حلال طریقے ہی اختیار کرنے پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہیں ، خواہ ان سے صرف چٹنی روٹی میسر ہو یا کروڑ پتی بن جانا نصیب ہوجائے ، اور حرام طریقوں کی طرف قطعا مائل نہ ہوں خواہ ان سے دنیا بھر کے فائدے سمیٹ لینے کا موقع مل رہا ہو ۔ اس آیت میں اللہ کے ثواب سے مراد ہے وہ رزق کریم جو حدود اللہ کے اندر رہتے ہوئے محنت و کوشش کرنے کے نتیجے میں انسان کو دنیا اور آخرت میں نصیب ہو ۔ اور صبر سے مراد ہے اپنے جذبات اور خواہشات پر قابو رکھنا ، لالچ اور حرص و آز کے مقابلے میں ایمانداری اور راستبازی پر ثابت قدم رہنا ، صداقت و دیانت سے جو نقصان بھی وہتا ہو یا جو فائدہ بھی ہاتھ سے جاتا ہو اسے برداشت کرلینا ، ناجائز تدبیروں سے جو منفعت بھی حاصل ہوسکتی ہو اسے ٹھوکر مار دینا ، حلال کی روزی خواہ بقدر سدرمق ہی ہو اس پر قانع و مطمئن رہنا ، حرام خوروں کے ٹھاٹھ دیکھ کر رشک و تمنا کے جذبات سے بے چین ہونے کے بجائے اس پر ایک نگاہ غلط انداز بھی نہ ڈالنا اور دل سے یہ سمجھ لینا کہ ایک ایماندار آدمی کے لیے اس چمکدار گندگی کی بہ نسبت وہ بے رونق طہارت ہی بہتر ہے جو اللہ نے اپنے فضل سے اس کو بخشی ہے ، رہا یہ ارشاد کہ یہ دولت نہیں ملتی مگر صبر کرنے والوں کو تو اس دولت سے مراد اللہ کا ثواب بھی ہے اور وہ پاکیزہ ذہنیت بھی جس کی بنا پر آدمی ایمان و عمل صالح کے ساتھ فاقہ کشی کرلینے کو اس سے بہتر سمجھتا ہے کہ بے ایمانی اختیار کر کے ارب پتی بن جائے ۔