Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَاَصۡبَحَ الَّذِيۡنَ تَمَـنَّوۡا مَكَانَهٗ بِالۡاَمۡسِ يَقُوۡلُوۡنَ وَيۡكَاَنَّ اللّٰهَ يَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ يَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِهٖ وَيَقۡدِرُ‌ۚ لَوۡلَاۤ اَنۡ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَيۡنَا لَخَسَفَ بِنَا‌ ؕ وَيۡكَاَنَّهٗ لَا يُفۡلِحُ الۡكٰفِرُوۡنَ‏ ﴿82﴾
اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالٰی ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی ۔
و اصبح الذين تمنوا مكانه بالامس يقولون ويكان الله يبسط الرزق لمن يشاء من عباده و يقدر لو لا ان من الله علينا لخسف بنا ويكانه لا يفلح الكفرون
And those who had wished for his position the previous day began to say, "Oh, how Allah extends provision to whom He wills of His servants and restricts it! If not that Allah had conferred favor on us, He would have caused it to swallow us. Oh, how the disbelievers do not succeed!"
Aur jo log kal uss kay martabay per phonchney ki aarzoo mandiyan ker rahey thay woh aaj kehney lagay kay kiya tum nahi dekhtay kay Allah Taalaa hi apnay bandon mein say jiss kay liye chahaye rozi kushada ker deta hai aur tang bhi? Agar Allah Taalaa hum per fazal na kerta to humen bhi dhansa deta kiya dekhtay nahi ho kay na-shukron ko kabhi kaamyabi nahi hoti?
اور کل جو لوگ اس جیسا ہونے کی تمنا کر رہے تھے ، کہنے لگے : اوہو ! پتہ چل گیا کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت کردیتا ہے ، اور ( جس کے لیے چاہتا ہے ) تنگی کردیتا ہے ۔ اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو وہ ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا ۔ اوہو ! پتہ چلا گیا کہ کافر لوگ فلاح نہیں پاتے ۔
اور کل جس نے اس کے مرتبہ کی آرزو کی تھی صبح ( ف۲۰۹ ) کہنے لگے عجب بات ہے اللہ رزق وسیع کرتا ہے اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فرماتا ہے ( ف۲۱۰ ) اگر اللہ ہم پر احسان فرماتا تو ہمیں بھی دھنسادیتا ، اے عجب ، کافروں کا بھلا نہیں ،
اب وہی لوگ جو کل اس کی منزلت کی تمنا کر رہے تھے کہنے لگے ” افسوس ، ہم بھول گئے تھے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے ۔ 101 اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا ۔ افسوس ہم کو یاد نہ رہا کہ کافر فلاح نہیں پایا کرتے ۔ 102 ” ؏۸
اور جو لوگ کل اس کے مقام و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے ( اَز رہِ ندامت ) کہنے لگے: کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور ( جس کے لئے چاہتا ہے ) تنگ فرماتا ہے ، اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ فرمایا ہوتا تو ہمیں ( بھی ) دھنسا دیتا ، ہائے تعجب ہے! ( اب معلوم ہوا ) کہ کافر نجات نہیں پا سکتے
سورة القصص حاشیہ نمبر : 101 یعنی اللہ کی طرف سے رزق کی کشادگی و تنگی جو کچھ بھی ہوتی ہے اس کی مشیت کی بنا پر ہوتی ہے اور اس مشیت میں اس کی کچھ دوسری ہی مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں ، کسی کو زیادہ رزق دینے کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہے اور اسے انعام دے رہا ہے ۔ بسا اوقات ایک شخص اللہ کا نہایت مغضوب ہوتا ہے مگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آخر کار یہی دولت اس کے اوپر اللہ کا سخت عذاب لے آتی ہے ، اس کے برعکس کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالی اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دے رہا ہے ۔ اکثر نیک لوگوں پر تنگی اس کے باوجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں ، بلکہ بارہا یہی تنگی ان کے لیے خدا کی رحمت ہوتی ہے ، اس حقیقت کو نہ سمجھنے ہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ان لوگوں کی خوشحالی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو دراصل خدا کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 102 یعنی ہمیں یہ غلط فہمی تھی کہ دنیوی خوشحالی اور دولت مندی ہی فلاح ہے ، اسی وجہ سے ہم سمجھے بیٹھے تھے کہ قارون بڑی فلاح پارہا ہے ۔ مگر اب پتہ چلا کہ حقیقی فلاح کسی اور ہی چیز کا نام ہے اور وہ کافروں کو نصیب نہیں ہوتی ۔ قارون کے قصے کا یہ سبق آموز پہلو صرف قرآن ہی میں بیان ہوا ہے ۔ بائیبل اور تلمود دونوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ، البتہ ان دونوں کتابوں میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو یہ شخص بھی اپنی پارٹی سمیت ان کے ساتھ نکلا ، اور پھر اس نے حضرت موسی و ہارون کے خلاف ایک سازش کی جس میں ڈھائی سو آدمی شامل تھے ۔ آخر اللہ کا غضب اس پر نازل ہوا اور یہ اپنے گھر بار اور مال اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا ۔