Surah

Information

Surah # 28 | Verses: 88 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 49 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 52-55 from Madina and 85 from Juhfa at the time of the Hijra
وَمَا كُنۡتَ تَرۡجُوۡۤا اَنۡ يُّلۡقٰٓى اِلَيۡكَ الۡكِتٰبُ اِلَّا رَحۡمَةً مِّنۡ رَّبِّكَ‌ فَلَا تَكُوۡنَنَّ ظَهِيۡرًا لِّـلۡكٰفِرِيۡنَ‏ ﴿86﴾
آپ کو تو کبھی اس کا خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ کی طرف کتاب نازل فرمائی جائے گی لیکن یہ آپ کے رب کی مہربانی سے اترا اب آپ کو ہرگز کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہیے ۔
و ما كنت ترجوا ان يلقى اليك الكتب الا رحمة من ربك فلا تكونن ظهيرا للكفرين
And you were not expecting that the Book would be conveyed to you, but [it is] a mercy from your Lord. So do not be an assistant to the disbelievers.
Aap ko kabhi iss ka khayal bhi na guzra tha kay aap ki taraf kitab nazil farmaee jaye gi lekin yeh aap kay rab i meharbaani say utra. Abb aap ko hergiz kafiron ka madadgaar na hona chahaye.
اور ( اے پیغمبر ) تمہیں پہلے سے یہ امید نہیں تھی کہ تم پر یہ کتاب نازل کی جائے گی ، لیکن یہ تمہارے رب کی طرف سے رحمت ہے ، لہذا کافروں کے ہرگز مددگار نہ بننا ۔
اور تم امید نہ رکھتے تھے کہ کتاب تم پر بھیجی جائے گی ( ف۲۱۷ ) ہاں تمہارے رب نے رحمت فرمائی تو تم ہرگز کافروں کی پشتی ( مدد ) نہ کرنا ( ف۲۱۸ )
تم اس بات کے ہرگز امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے گی ، یہ تو محض تمہارے رب کی مہربانی سے ﴿ تم پر نازل ہوئی ہے﴾109 ، پس تم کافروں کے مددگار نہ بنو ۔ 110
اور تم ( حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اُمتِ محمدی کو خطاب ہے ) اس بات کی امید نہ رکھتے تھے کہ تم پر ( یہ ) کتاب اتاری جائے گی مگر ( یہ ) تمہارے رب کی رحمت ( سے اتری ) ہے ، پس تم ہرگز کافروں کے مددگار نہ بننا
سورة القصص حاشیہ نمبر : 109 یہ بات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں پیش کی جارہی ہے جس طرح موسی علیہ السلام بالکل بے خبر تھے کہ انہیں نبی بنایا جانے والا ہے اور ایک عظیم الشان مشن پر وہ مامور کیے جانے والے ہیں ، ان کے حاشیہ خیال میں بھی اس کا ارادہ یا خواہش تو درکنار اس کی توقع تک کبھی نہ گزری تھی ، بس یکایک راہ چلتے انہیں کھینچ بلایا گیا اور نبی بنا کر وہ حیرت انگیز کام ان سے لیا گیا جو ان کی سابق زندگی سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا تھا ، ٹھیک ایسا ہی معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی پیش آیا ، مکہ کے لوگ خود جانتے تھے کہ غار حرا سے جس روز آپ نبوت کا پیغام لے کر اترے اس سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی کیا تھی ، آپ کے مشاغل کیا تھے ، آپ کی بات چیت کیا تھی ، آپ کی گفتگو کے موضوعات کیا تھے ، آپ کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں کس نوعیت کی تھیں ، یہ پوری زندگی صداقت ، دیانت ، امانت اور پاکبازی سے لبریز ضرور تھی ، اس میں انتہائی شرافت ، امن پسندی ، پاس عہد ، ادائے حقوق اور خدمت خلق کا رنگ بھی غیر معمولی شان کے ساتھ نمایاں تھا ، مگر اس میں کوئی چیز ایسی موجود نہ تھی جس کی بنا پر کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال گزر سکتا ہو کہ یہ نیک بندہ کل نبوت کا دعوی لے کر اٹھنے والا ہے ، آپ سے قریب ترین ربط ضبط رکھنے والوں میں ، آپ کے رشتہ داروں اور ہمسایوں اور دوستوں میں کوئی شخص یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ آپ پہلے سے نبی بننے کی تیاری کر رہے تھے ، کسی نے ان مضامین اور مسائل اور موضوعات کے متعلق بھی ایک لفظ تک آپ کی زبان سے نہ سنا تھا جو غار حرا کی اس انقلابی ساعت کے بعد یکایک آپ کی زبان پر جاری ہونے شروع ہوگئے ۔ کسی نے آپ کو وہ مخصوص زبان اور وہ الفاظ اور اصطلاحات استعمال کرتے نہ سنا تھا جو اچانک قرآن کی صورت میں لوگ آپ سے سننے لگے ، کبھی آپ وعظ کہنے کھڑے نہ ہوئے تھے ، کبھی کوئی دعوت اور تحریک لے کر نہ اٹھے تھے ، بلکہ کبھی آپ کی کسی سرگرمی سے یہ گمان تک نہ ہوسکتا تھا کہ آپ اجتماعی مسائل کے حل ، یا مذہبی اصلاح یا اخلاقی اصلاح کے لیے کوئی کام شروع کرنے کی فکر میں ہیں ، اس انقلابی ساعت سے ایک دن پہلے تک آپ کی زندگی ایک ایسے تاجر کی زندگی نظر آتی تھی جو سیدھے سادھے جائز طریقوں سے اپنی روزی کماتا ہے ، اپنے بال بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہے ، مہمانوں کی تواضع ، غریبوں کی مدد اور رشتہ داروں سے حسن سلوک کرتا ہے ، اور کبھی کبھی عبادت کرنے کے لیے خلوت میں جا بیٹھتا ہے ، ایسے شخص کا یکایک ایک عالمگیر زلزلہ ڈال دینے والی خطابت کے ساتھ اٹھنا ، ایک انقلاب انگیز دعوت شروع کردینا ، ایک نرالا لٹریچر پیدا کردینا ، ایک مستقل فلسفہ حیات اور نظام فکر و اخلاق و تمدن لے کر سامنے آجانا ، اتنا بڑا تغیر ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے کسی بناوٹ اور تیاری اور ارادی کوشش کے نتیجے میں قطعا رونما نہیں ہوسکتا ، اس لیے کہ ایسی ہر کوشش اور تیاری بہرحال تدریجی ارتقاء کے مراحل سے گزرتی ہے اور یہ مراحل ان لوگوں سے کبھی مخفی نہیں رہ سکتے جن کے درمیان آدمی شب و روز زندگی گزارتا ہو ، اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ان مراحل سے گزری ہوتی تو مکہ میں سینکڑوں زبانیں یہ کہنے والی ہوتیں کہ ہم نہ کہتے تھے ، یہ شخص ایک دن کوئی بڑا دعوی لے کر اٹھنے والا ہے ، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ کفار مکہ نے آپ پر ہر طرح کے اعتراضات کیے ، مگر یہ اعتراض کرنے والا ان میں سے کوئی ایک شخص بھی نہ تھا ۔ پھر یہ بات کہ آپ خود بھی نبوت کے خواہش مند یا اس کے لیے متوقع اور منتظر نہ تھے بلکہ پوری بے خبری کی حالت میں اچانک آپ کو اس معاملہ سے سابقہ پیش آگیا ، اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے جو احادیث میں آغاز وحی کی کیفیت کے متعلق منقول ہوا ہے ، جبریل سے پہلی ملاقات اور سورہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد آپ غار حرا سے کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں ، گھر والوں سے کہتے ہیں کہ مجھے اڑھاؤ ، مجھے اڑھاؤ کچھ دیر کے بعد جب ذرا خوف زدگی کی کیفیت دور ہوتی ہے تو اپنی رفیق زندگی کو سارا ماجرا سنا کر کہتے ہیں کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے وہ فورا جواب دیتی ہیں ہرگز نہیں ، آپ کو اللہ کبھی رنج میں نہ ڈالے گا ، آپ تو قرابت داروں کے حق ادا کرتے ہیں ، بےکس کو سہارا دیتے ہیں ، بے زر کی دستگیری کرتے ہیں ، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں ، ہر کار خیر میں مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔ پھر وہ آپ کو لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جاتی ہیں جو ان کے چچازاد بھائی اور اہل کتاب میں سے ایک ذی علم اور راستباز آدمی تھے ۔ وہ آپ سے سارا واقعہ سننے کے بعد بلا تامل کہتے ہیں کہ یہ جو آپ کے پاس آیا تھا وہی ناموس ( کار خاص پر مامور فرشتہ ) ہے جو موسی کے پاس آتا تھا ، کاش میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو نکال دے گی ۔ آپ پوچھتے ہیں کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے ؟ وہ جواب دیتے ہیں ہاں ، کوئی شخص ایسا نہیں گزرا کہ وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپ لائے ہیں اور لوگ اس کے دشمن نہ ہوگئے ہوں ۔ یہ پورا واقعہ اس حالت کی تصویر پیش کردیتا ہے جو بالکل فطری طور پر یکایک خلاف توقع ایک انتہائی غیر معمولی تجربہ پیش آجانے سے کسی سیدھے سادھے انسان پر طاری ہوسکتی ہے ۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے نبی بننے کی فکر میں ہوتے ، اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے ، اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے ، تو غار حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر سیدھے اپنی قوم کے سامنے پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کردیتے ، لیکن اس کے برعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں ، کانپتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں ، لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں ، ذرا دل ٹھہرتا ہے تو بیوی کو چپکے سے بتاتے ہیں کہ آج غار کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے ، معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے ، مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی ، یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے ۔ پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی ، اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے؟ اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آئی ہوئی ہوتی کہ یہاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کر رہے ہیں تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہ نے دیا ۔ وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھی وہ مل گئی ، چلو اب پیری کی دکان چمکاؤ ، میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں ، لیکن وہ پندرہ برس کی رفاقت میں آپ کی زندگی کا جو رنگ دیکھ چکی تھیں اس کی بنا پر انہیں یہ بات سمجھنے میں ایک لمحہ کی دیر بھی نہ لگی کہ ایسے نیک اور بے لوث انسان کے پاس شیطان نہیں آسکتا ، نہ اللہ اس کو کسی بری آزمائش میں ڈال سکتا ہے ، اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ سراسر حقیقت ہے ۔ اور یہی معاملہ ورقہ بن نوفل کا بھی ہے ۔ وہ کوئی باہر کے آدمی نہ تھے بلکہ حضور کی اپنی برادری کے آدمی اور قریب کے رشتے سے برادر نسبتی تھے ، پھر ایک ذی علم عیسائی ہونے کی حیثیت سے نبوت اور کتاب اور وحی کو بناوٹ اور تصنع سے ممیز کرسکتے تھے ۔ عمر میں کئی سال بڑے ہونے کی وجہ سے آپ کی پوری زندگی بچپن سے اس وقت تک ان کے سامنے تھی ، انہوں نے بھی آپ کی زبان سے حرا کی سرگزشت سنتے ہی فورا کہہ دیا کہ یہ آنے والا یقینا وہی فرشتہ ہے جو موسی علیہ السلام پر وحی لاتا تھا ۔ کیونکہ یہاں بھی وہی صورت پیش آئی تھی جو حضرت موسی کے ساتھ پیش آئی تھی کہ ایک انتہائی پاکیزہ سیرت کا سیدھا سادھا انسان بالکل خالی الذہن ہے ، نبوت کی فکر میں رہنا تو درکنار اس کے حصول کا تصور تک اس کے حاشیہ خیال میں کبھی نہیں آیا ہے ، اور اچانک وہ پورے ہوش و حواس کی حالت میں علانیہ اس تجربے سے دوچار ہوتا ہے ، اسی چیز نے ان کو دو اور دو چار کی طرح بلا ادنی تامل اس نتیجہ تک پہنچا دیا کہ یہاں کوئی فریب نفس یا شیطانی کرشمہ نہیں ہے ، بلکہ اس سچے انسان نے اپنے کسی ارادے اور خواہش کے بغیر جو کچھ دیکھا ہے وہ دراصل حقیقت ہی کا مشاہدہ ہے ۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ایسا بین ثبوت ہے کہ ایک حقیقت پسند انسان مشکل ہی سے اس کا انکار کرسکتا ہے ، اسی لیے قرآن میں متعدد مقامات پر اسے دلیل نبوت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ، مثلا سورہ یونس میں فرمایا: قُلْ لَّوْ شَاۗءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَآ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ ڮ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔ ( آیت: 16 ) اے نبی ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا تو میں کبھی یہ قرآن تمہیں نہ سناتا بلکہ اس کی خبر تک وہ تم کو نہ دیتا ۔ آخر میں اس سے پہلے ایک عمر تمہارے درمیان گزار چکا ہوں کیا تم اتنی بات بھی نہیں سمجھتے؟ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا: مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ وَلٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِنَا ۔ ( آیت: 52 ) اے نبی تم تو جانتے تک نہ تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ، مگر ہم نے اس وحی کو ایک نور بنا دیا جس سے ہم رہنمائی کرتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتے ہیں ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظۃ ہو تفہیم القرآن جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 21 ۔ جلد سوم ، عنکبوت حواشی 88 تا 92 ، جلد چہارم ، الشوری ، حاشیہ 84 ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 110 یعنی جب اللہ نے یہ نعمت تمہیں بے مانگے عطا فرمائی ہے تو اس کا حق اب تم پر یہ ہے کہ تمہاری ساری قوتیں اور محنتیں اس کی علمبرداری پر ، اس کی تبلیغ پر اور اسے فروغ دینے پر صرف ہوں ، اس میں کوتاہی کرنے کے معنی یہ ہوں گے کہ تم نے حق کے بجائے منکرین حق کی مدد کی ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذ اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کسی کوتاہی کا اندیشہ تھا ، بلکہ دراصل اس طرح اللہ تعالی کفار کو سناتے ہوئے اپنے نبی کو یہ ہدایت فرما رہا ہے کہ تم ان کے شور و غوغا اور ان کی مخالفت کے باوجود اپنا کام کرو اور اس کی کوئی پروا نہ کرو کہ دشمنان حق اس دعوت سے اپنے قومی مفاد پر ضرب لگنے کے کیا اندیشے ظاہر کرتے ہیں ۔