Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
الٓمّٓ‌ ۚ‏ ﴿1﴾
الم
Alif, Lam, Meem
Alif-Laam-Meem
الف ۔ ل ۔ م ۔
الف ، لام ، میم ( حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں )
سورة العنکبوت: نام: آیت 41 کے فقرہ مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَاۗءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ سے ماخوذ ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ عنکبوت آیا ہے ۔ زمانہ نزول: آیات 56 تا 60 سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی ۔ باقی مضامین کی اندرونی شہادت بھی اسی کی تائید کرتی ہے ، کیونکہ پس منظر میں اسی زمانہ کے حالات جھلکتے نظر آتے ہیں ، بعض مفسرین نے صرف اس دلیل کی بنا پر کہ اس میں منافقین کا ذکر آیا ہے اور نفاق کا ظہور مدینہ میں ہوا ہے ، یہ قیاس قائم کرلیا کہ اس سورۃ کی ابتدائی دس آیات مدنی ہیں اور باقی سورۃ مکی ہے ، حالانکہ یہاں جن لوگوں کے نفاق کا ذکر ہے وہ وہ لوگ ہیں جو کفار کے ظلم و ستم اور شدید جسمانی اذیتوں کے ڈر سے منافقانہ روش اختیار کر رہے تھے اور ظاہر ہے کہ اس نوعیت کا نفاق مکہ ہی میں ہوسکتا تھا نہ کہ مدینہ میں ، اسی طرح بعض دوسرے مفسرین نے یہ دیکھ کر اس سورہ میں مسلمانوں کی ہجرت کرنے کی تلقین کی گئی ہے ، اسے مکہ کی آخری نازل شدہ سورت قرار دے دیا ہے ، حالانکہ مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمان حبشہ کی طرف بھی ہجرت کرچکے تھے ، یہ تمام قیاسات دراصل کسی روایت پر مبنی نہیں ہیں بلکہ صرف مضامین کی اندرونی شہادت پر ان کی بنا رکھی گئی ہے ، اور یہ اندرونی شہادت اگر پوری سورت کے مضامین پر بحیثیت مجموعی نگاہ ڈالی جائے ، مکہ کے آخری دور کی نہیں بلکہ اس دور کے حالات کی نشاندہی کرتی ہے جس میں ہجرت حبشہ واقعہ ہوئی تھی ۔ موضوع و مضمون: سورۃ کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کا زمانہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں پر بڑے مصائب و شدائد کا زمانہ تھا ، کفار کی طرف سے اسلام کی مخالفت پورے زور شور سے ہورہی تھی اور ایمان لانے والوں پر سخت ظلم و ستم توڑے جارہے تھے ، ان حالات میں اللہ تعالی نے یہ سورۃ ایک طرف صادق الایمان لوگوں میں عزم و ہمت اور استقامت پیدا کرنے کے لیے اور دوسری طرف ضعیف الایمان لوگوں کو شرم دلانے کے لیے نازل فرمائی ۔ اس کے ساتھ کفار مکہ کو بھی اس میں سخت تہدید کی گئی کہ اپنے حق میں اس انجام کو دعوت نہ دیں جو عداوت حق کا طریقہ اختیار کرنے والے ہر زمانے میں دیکھتے رہے ہیں ۔ اس سلسلہ میں ان سوالات کا جواب بھی دیا گیا ہے جو بعض نوجوانوں کو اس وقت پیش آرہے تھے ۔ مثلا ان کے والدین ان پر زور ڈالتے تھے کہ تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ساتھ چھوڑ دو اور ہمارے دین پر قائم رہو ، جس قرآن پر تم ایمان لائے ہو اس میں بھی تو یہی لکھا ہے کہ ماں باپ کا حق سب سے زیادہ ہے ، تو ہم جو کچھ کہتے ہیں اسے مانو ورنہ تم خود اپنے ہی ایمان کے خلاف کام کرو گے ۔ اس کا جواب آیت 8 میں دیا گیا ہے ۔ اسی طرح بعض نو مسلموں سے ان کے قبیلے کے لوگ کہتے تھے کہ عذاب ثواب ہماری گردن پر ، تم ہمارا کہنا مانو اور اس شخص سے الگ ہوجاؤ ، اگر خدا تمہیں پکڑے گا تو ہم خود آگے بڑھ کر کہہ دیں گے کہ صاحب ، ان بے چاروں کا کچھ قصور نہیں ، ان کو ہم نے ایمان چھوڑنے پر مجبور کیا تھا ، اس لیے آپ ہمیں پکڑ لیں ، اس کا جواب آیات 12 ۔ 13 میں دیا گیا ہے ۔ جو قصے اس سورے میں بیان کیے گئے ہیں ان میں بھی زیادہ تر یہی پہلو نمایاں ہے کہ پچھلے انبیاء کو دیکھو ، کیسی کیسی سختیاں ان پر گزریں اور کتنی کتنی مدت وہ ستائے گئے ، پھر آخر کار اللہ تعالی کی طرف سے ان کی مدد ہوئی ، اس لیے گھبراؤ نہیں ، اللہ کی مدد ضرور آئے گی ، مگر آزمائش کا ایک دور گزرنا ضروری ہے ، مسلمانوں کو یہ سبق دینے کے ساتھ کفار مکہ کو بھی ان قصوں میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف سے پکڑ ہونے میں دیر لگ رہی ہے تو یہ نہ سمجھ بیٹھو کہ کبھی پکڑ ہوگی ہی نہیں ۔ پچھلی تباہ شدہ قوموں کے نشانات تمہارے سامنے ہیں ، دیکھ لو کہ آخر کار ان کی شامت آکر رہی اور خدا نے اپنے نبیوں کی مدد کی ۔ پھر مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اگر ظلم و ستم تمہارے لیے ناقابل برداشت ہوجائے تو ایمان چھوڑنے کے بجائے گھر بار چھوڑ کر نکل جاؤ ، خدا کی زمین وسیع ہے ، جہاں خدا کی بندگی کرسکو وہاں چلے جاؤ ۔ ان سب باتوں کے ساتھ کفار کی تفہیم کا پہلو بھی چھوٹنے نہیں پایا ہے ۔ توحید اور معاد ، دونوں حقیقتوں کو دلائل کے ساتھ ان کے ذہن نشین کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، شرک کا ابطال کیا گیا ہے اور آثار کائنات کی طرف توجہ دلا کر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ سب نشانات اس تعلیم کی تصدیق کر رہے ہیں جو ہمارا نبی تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے ۔
حروف مقطعہ کی بحث سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں گزرچکی ہے ۔ امتحان اور مومن پھر فرماتا ہے یہ ناممکن ہے کہ مومنوں کو بھی امتحان سے چھوڑ دیا جائے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے پھر صالح نیک لوگوں کا پھر ان سے کم درجے والے پھر ان سے کم درجے والے ۔ انسان کا امتحان اس کے دین کے انداز پر ہوتا ہے اگر وہ اپنے دین میں سخت ہے تو مصیبتیں بھی سخت نازل ہوتی ہیں ۔ اسی مضمون کا بیان اس آیت میں بھی ہے ( اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَكُوْا وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَلَمْ يَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلَا رَسُوْلِهٖ وَلَا الْمُؤْمِنِيْنَ وَلِيْجَةً ۭ وَاللّٰهُ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ 16۝ۧ ) 9- التوبہ:16 ) کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ تم چھوڑ دئیے جاؤ گے ؟ حالانکہ ابھی اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے مجاہد کون ہے؟ اور صابر کون ہے؟ اسی طرح سورۃ برات اور سورہ بقرہ میں بھی گزر چکا ہے کہ کیا تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ تم جنت میں یونہی چلے جاؤ گے؟ اور اگلے لوگوں جیسے سخت امتحان کے موقعے تم پر نہ آئیں گے ۔ جیسے کہ انہیں بھوک ، دکھ ، درد وغیرہ پہنچے ۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ کے ایماندار بول اٹھے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے؟ یقین مانو کہ اللہ کی مدد قریب ہے ۔ یہاں بھی فرمایا ان سے اگلے مسلمانوں کی بھی جانچ پڑتال کی گئی انہیں بھی سرد گرم چکھایا گیا تاکہ جو اپنے دعوے میں سچے ہیں اور جو صڑف زبانی دعوے کرتے ہیں ان میں تمیز ہوجائے اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ اسے جانتا نہ تھا وہ ہر ہوچکی بات کو اور ہونے والی بات کو برابر جانتا ہے ۔ اس پر اہل سنت والجماعت کے تمام اماموں کا اجماع ہے ۔ پس یہاں علم رویت یعنی دیکھنے کے معنی میں ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لنعلم کے معنی لنری کرتے ہیں کیونکہ دیکھنے کا تعلق موجود چیزوں سے ہوتا ہے اور عم اس سے عام ہے ۔ پھر فرمایا ہے جو ایمان نہیں لائے وہ بھی یہ گمان نہ کریں کہ امتحان سے بچ جائیں گے بڑے بڑے عذاب اور سخت سزائیں ان کی تاک میں ہیں ۔ یہ ہاتھ سے نکل نہیں سکتے ہم سے آگے بڑھ نہیں سکتے ان کے یہ گمان نہایت برے ہیں جن کا برا نتیجہ یہ عنقریب دیکھ لیں گے ۔