Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنۡ يُّتۡرَكُوۡۤا اَنۡ يَّقُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا وَهُمۡ لَا يُفۡتَـنُوۡنَ‏ ﴿2﴾
کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟
احسب الناس ان يتركوا ان يقولوا امنا و هم لا يفتنون
Do the people think that they will be left to say, "We believe" and they will not be tried?
Kiya logon ney yeh guman ker rakha hai kay unn kay sirf iss daway per kay hum eman laye hain hum unhen baghair aazmaye huyey hi chor den gay?
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے گا کہ بس وہ یہ کہہ دیں کہ : ہم ایمان لے آئے ۔ اور ان کو آزمایا نہ جائے؟
کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے ، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی ( ف۲ )
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ” ہم ایمان لائے ” اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟ 1
کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ( صرف ) ان کے ( اتنا ) کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 1 جن حالات میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے وہ یہ تھے کہ مکہ معظمہ میں جو شخص بھی اسلام قبول کرتا تھا اس پر آفات اور مصائب اور مظالم کا ایک طوفان ٹوٹ پڑا تھا ، کوئی غلام یا غریب ہوتا تو اس کو بری طرح مارا پیٹا جاتا اور سخت ناقابل برداشت اذیتیں دی جاتیں ، کوئی دوکاندار یا کاریگر ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے یہاں تک کہ بھوکوں مرنے کی نوبت آجاتی ، کوئی کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کو طرح طرح سے تنگ کرتے اور اس کی زندگی اجیرن کردیتے تھے ۔ ان حالات نے مکے میں ایک سخت خوف اور دہشت کا ماحول پیدا کردیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہوجانے کے باوجود ایمان لاتے ہوئے ڈرتے تھے ، اور کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد جب دردناک اذیتوں سے دورچار ہوتے تو پست ہمت ہوکر کفار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے تھے ۔ ان حالات نے اگرچہ راسخ الایمان صحابہ کے عزم و ثبات میں کوئی تزلزل پیدا نہ کیا تھا ، لیکن انسانی فطرت کے تقاضے سے اکثر ان پر بھی ایک شدید اضطراب کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی ۔ چنانچہ اسی کیفیت کا ایک نمونہ حضرت خباب بن ارت کی وہ روایت پیش کرتی ہے جو بخاری ، ابو داؤد اور نسائی نے نقل کی ہے ۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے ، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں ، میں نے حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ، آپ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے؟ یہ سن کر آپ کا چہرہ جوش اور جذبے سے سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں ، ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کر ڈالے جاتے ، کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تھے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے ، خدا کی قسم یہ کام پورا ہوکر رہے گا ، یہں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضر موت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے ۔ اس اضطرابی کیفیت کو ٹھنڈے صبر و تحمل میں تبدیل کرنے کے لیے اللہ تعالی اہل ایمان کو سمجھاتا ہے کہ ہمارے جو وعدے دنیا اور آخرت کی کامرانیوں کے لیے ہیں ، کوئی شخص مجرد زبانی دعوائے ایمان کر کے ان کا مستحق نہیں ہوسکتا ، بلکہ ہر مدعی کو لازما آزمائشوں کی بھٹی سے گزرنا ہوگا تاکہ وہ اپنے دعوے کی صلاحیت کا ثبوت دے ۔ ہماری جنت اتنی سستی نہیں ہے اور نہ دنیا ہی میں ہماری خاص عنایات ایسی ارزاں ہیں کہ تم بس زبان سے ہم پر ایمان لانے کا اعلان کرو اور ہم وہ سب کچھ تمہیں بخش دیں ۔ ان کے لیے تو امتحان شرط ہے ، ہماری خاطر مشقتیں اٹھانی ہوں گی ، جان و مال کا زیاں برداشت کرنا ہوگا ، طرح طرح کی سختیاں جھیلنی ہوں گی ، خطرات ، مصائب اور مشکلات کا مقابلہ کرنا ہوگا ، خوف سے بھی آزمائے جاؤ گے اور لالچ سے بھی ، ہر چیز جسے عزیز و محبوب رکھتے ہو ، ہماری رضا پر اسے قربان کرنا پڑے گا اور ہر تکلیف جو تمہیں ناگوار ہے ، ہمارے لیے برداشت کرنی ہوگی ، تب کہیں یہ بات کھلے گی کہ ہمیں ماننے کا جو دعوی تم نے کیا تھا وہ سچا تھا یا جھوٹا ۔ یہ بات قرآن مجید میں ہر اس مقام پر کہی گئی ہے جہاں مصائب و شدائد کے ہجوم میں مسلمانوں پر گھبراہٹ کا عالم طاری ہوا ہے ، ہجرت کے بعد مدینے کی ابتدائی زندگی میں جب معاشی مشکلات ، بیرون خطرات اور یہود و منافقین کی داخلی شرارتوں نے اہل ایمان کو سخت پریشان کر رکھا تھا ، اس وقت فرمایا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ ( البقرہ: آیت 214 ) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پر وہ حالات نہیں گزرے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے ( اہل ایمان ) پر گزر چکے ہیں؟ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں اور وہ بلا مارے گئے ، یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی ، ( تب انہیں مژدہ سنایا گیا کہ ) خبردار رہو ، اللہ کی مدد قریب ہے ۔ اسی طرح جنگ احد کے بعد جب مسلمانوں پر پھر مصائب کا ایک سخت دور آیا تو ارشاد ہوا: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ جٰهَدُوْا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصّٰبِرِيْنَ ۔ ( آل عمران: آیت 142 ) کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے ، حالانکہ ابھی اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پامردی دکھانے والے کون ہیں؟ قریب قریب یہی مضمون سورہ آل عمران ، آیت 179 ، سورہ توبہ آیت 16 ، اور سورہ محمد آیت 31 میں بھی بیان ہوا ہے ۔ ان ارشادات سے اللہ تعالی نے یہ حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین فرمائی ہے کہ آزمائش ہی وہ کسوٹی ہے جس سے کھوٹا اور کھرا پرکھا جاتا ہے ، کھوٹا خودبخود اللہ تعالی کی راہ سے ہٹ جاتا ہے اور کھڑا چھانٹ لیا جاتا ہے تاکہ اللہ کے ان انعامات سے سرفراز ہو جو صرف صادق الایمان لوگوں کا ہی حصہ ہیں ۔