Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَلَقَدۡ فَتَـنَّا الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ‌ فَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ صَدَقُوۡا وَلَيَعۡلَمَنَّ الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿3﴾
ان سے اگلوں کو بھی ہم نے خوب جانچا یقیناً اللہ تعالٰی انہیں بھی جان لے گا جو سچ کہتے ہیں اور انہیں بھی معلوم کر لے گا جو جھوٹے ہیں ۔
و لقد فتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا و ليعلمن الكذبين
But We have certainly tried those before them, and Allah will surely make evident those who are truthful, and He will surely make evident the liars.
Inn say aglon ko bhi hum ney khoob jancha. Yeqeenan Allah Taalaa unhen bhi jan ley ga jo sach kehtay hain aur unhen bhi maloom ker ley ga jo jhootay hain.
حالانکہ ہم نے ان سب کی آزمائش کی ہے جو ان سے پہلے گذر چکے ہیں ۔ لہذا اللہ ضرور معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ ہیں جنہوں نے سچائی سے کام لیا ہے اور وہ یہ بھی معلوم کر کے رہے گا کہ کون لوگ جھوٹے ہیں ۔ ( ١ )
اور بیشک ہم نے ان سے اگلوں کو جانچا ( ف۳ ) تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا ( ف٤ )
حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں ۔ 2 اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے 3 کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ۔
اور بیشک ہم نے ان لوگوں کو ( بھی ) آزمایا تھا جو ان سے پہلے تھے سو یقیناً اللہ ان لوگوں کو ضرور ( آزمائش کے ذریعے ) نمایاں فرما دے گا جو ( دعوٰی ایمان میں ) سچے ہیں اور جھوٹوں کو ( بھی ) ضرور ظاہر کر دے گا
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 2 یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمہارے ساتھ ہی پیش آرہا ہو ۔ تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جس نے بھی ایمان کا دعوی کیا ہے اسے آزمائشوں کی بھٹی میں ڈال کر ضرور تپایا گیا ہے ، اور جب دوسروں کو امتحان کے بغیر کچھ نہیں دیا گیا تو تمہاری خصوصیت ہے کہ تمہیں صرف زبانی دعوے پر نواز دیا جائے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 3 اصل الفاظ ہیں فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ جن کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ ضرور ہے اللہ یہ معلوم کرے اس پر ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ اللہ کو تو سچے کی سچائی اور جھوٹے کا جھوٹ خود ہی معلوم ہے ، آزمائش کر کے اسے معلوم کرنے کی کیا ضرورت ہے ، اس کا جواب یہ ہے کہ جب تک ایک شخص کے اندر کسی چیز کی صرف صلاحیت اور استعداد ہی ہوتی ہے ، عملا اس کا ظہور نہیں ہوجاتا ، اس وقت تک ازروئے عدل و انصاف نہ تو وہ کسی جزا کا مستحق ہوسکتا ہے نہ سزا کا ۔ مثلا ایک آدمی میں امین ہونے کی صلاحیت ہے اور ایک دوسرے میں خائن ہونے کی صلاحیت ، ان دونوں پر جب تک آزمائش نہ آئے اور ایک سے امانت داری کا اور دوسرے سے خیانت کا عملا ظہور نہ ہوجائے ، یہ بات اللہ کے انصاف سے بعید ہے کہ وہ محض اپنے علم غیب کی بنا پر ایک کو امانت داری کا انعام دے دے اور دوسرے کو خیانت کی سزا دے ڈالے ۔ اس لیے وہ علم ساق جو اللہ کو لوگوں کے اچھے اور برے اعمال سے پہلے ان کی صلاحیتوں کے بارے میں اور ان کے آئندہ طرز عمل کے بارے میں حاصل ہے ، انصاف کی اغراض کے لیے کافی نہیں ہے ، اللہ کے ہاں انصاف اس علم کی بنیاد پر نہیں ہوتا کہ فلاں شخص چوری کا رجحان رکھتا ہے اور چوری کرے گا یا کرنے والا ہے ، بلکہ اس علم کی بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس شخس نے چوری کر ڈالی ہے ۔ اسی طرح بخششیں اور انعامات بھی اس کے ہاں اس علم کی بنا پر نہیں دیے جاتے کہ فلاں شخص اعلی درجے کا مومن و مجاہد بن سکتا ہے یا بنے گا ، بلکہ اس علم کی بنا پر دیے جاتے ہیں کہ فلاں شخص نے اپنے عمل سے اپنا صادق الایمان ہونا ثابت کردیا ہے اور اللہ کی راہ میں جان لڑا کر دکھا دی ہے ، اسی لیے ہم نے آیت کے ان الفاظ کا ترجمہ اللہ کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کیا ہے ۔