Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـنُكَفِّرَنَّ عَنۡهُمۡ سَيِّاٰتِهِمۡ وَلَـنَجۡزِيَنَّهُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِىۡ كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿7﴾
اور جولوگ ایمان لائے اور انہو ں نے مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کر دیں گے اور انہیں ان کے نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے ۔
و الذين امنوا و عملوا الصلحت لنكفرن عنهم سياتهم و لنجزينهم احسن الذي كانوا يعملون
And those who believe and do righteous deeds - We will surely remove from them their misdeeds and will surely reward them according to the best of what they used to do.
Aur jo log eman laye aur unhon ney mutabiq-e-sunnat kaam kiye hum unn kay tamam gunahon ko unn say door ker den gay aur unhen unn kay nek aemaal kay behtareen badlay den gay.
اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، ہم ان کی خطاؤں کو ضرور ان سے جھاڑ دیں گے ، اور جو عمل وہ کرتے رہے ہیں ، ان کا بہترین بدلہ انہیں ضرور دیں گے ۔
اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ہم ضرور ان کی برائیاں اتار دیں گے ( ف۱۳ ) اور ضرور انھیں اس کام پر بدلہ دیں گے جو ان کے سب کاموں میں اچھا تھا ( ف۱٤ )
اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے ان کی برائیاں ہم ان سے دور کر دیں گے اور انہیں ان کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے ۔ 10
اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ہم ان کی ساری خطائیں ان ( کے نامۂ اعمال ) سے مٹا دیں گے اور ہم یقیناً انہیں اس سے بہتر جزا عطا فرما دیں گے جو عمل وہ ( فی الواقع ) کرتے رہے تھے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 10 ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہے جنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے ۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے ۔ دل و دماغ کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں ۔ زبان کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جو بات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے ۔ اور اعضا و جوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہوں ، اس ایمان و عمل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں ا سے دور کردی جائیں گی ۔ دوسرا یہ کہ اسے اس کے بہترین اعمال کی ، اور اس کے اعمال سے بہتر جزا دی جائے گی ۔ برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں ۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں ، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہوجائیں گے ، دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آدمی نے بغاوت کے جذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں ، اس کے نیک اعمال کا لحاظ کر کے ان سے درگزر کیا جائے گا ۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہوگی اور اس کی بہت سی کمزوریاں دور ہوجائیں گی ۔ ایمان و عمل صالح کی جزا کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظ رکھ کر اس کے لیے جزا تجویز کی جائے گی ۔ دوسرے یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزا کا مستحق ہوگا اس سے زیادہ اچھی جزا اسے دی جائے گی ۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے ۔ مثلا سورہ انعام میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۔ ( آیت 160 ) جو نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے دس گنا اجر دیا جائے گا ۔ اور سورہ قصص میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا ۔ ( آیت 84 ) جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے بہتر اجر دیا جائے گا ۔ اور سورہ نساء میں فرمایا اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا ۔ ( آیت 40 ) اللہ طلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا ، اور نیکی ہو تو اس کو کئی گنا بڑھاتا ہے ۔