Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَيۡهِ حُسۡنًا‌ ؕ وَاِنۡ جَاهَدٰكَ لِتُشۡرِكَ بِىۡ مَا لَـيۡسَ لَـكَ بِهٖ عِلۡمٌ فَلَا تُطِعۡهُمَا ؕ اِلَىَّ مَرۡجِعُكُمۡ فَاُنَبِّئُكُمۡ بِمَا كُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ‏ ﴿8﴾
ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی ہے ہاں اگر وہ یہ کوشش کریں کہ آپ میرے ساتھ اسے شریک کرلیں جس کا آپ کو علم نہیں تو ان کا کہنا نہ مانیئے تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے پھر میں ہر اس چیز سے جو تم کرتے تھے تمہیں خبر دوں گا ۔
و وصينا الانسان بوالديه حسنا و ان جاهدك لتشرك بي ما ليس لك به علم فلا تطعهما الي مرجعكم فانبكم بما كنتم تعملون
And We have enjoined upon man goodness to parents. But if they endeavor to make you associate with Me that of which you have no knowledge, do not obey them. To Me is your return, and I will inform you about what you used to do.
Hum ney her insan ko apnay maa baap kay sath acha salook kerney ki naseehat ki hai haan agar woh yeh kosish keren kay aap meray sath ussay shareek ker len jiss ka aap ko ilm nahi to unn ka kehna na maniyey tum sab ka lotna meri hi taraf hai phir mein her uss cheez say jo tum kertay thay tumhen khabar doon ga.
اور ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔ اور اگر وہ تم پر زور ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے ( معبود ) کو شریک ٹھہراؤ جس کے بارے میں تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ، تو ان کا کہنا مت مانو ( ٣ ) میری ہی طرف تم سب کو لوٹ کر آنا ہے ، اس وقت میں تمہیں بتاؤں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔
اور ہم نے آدمی کو تاکید کی اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کی ( ف۱۵ ) اور اگر تو وہ تجھ سے کوشش کریں کہ تو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو تو ان کا کہا نہ مان ( ف۱٦ ) میری ہی طرف تمہارا پھرنا ہے تو میں بتادوں گا تمہیں جو تم کرتے تھے ( ف۱۷ )
ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے ۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے ﴿معبود﴾ کو شریک ٹھہرا ئے جسے تو ﴿میرے شریک کی حیثیت سے ﴾ نہیں جانتا تو ان کی اطاعت 11 نہ کر ۔ میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے ، پھر میں تم کو بتا دوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو ۔ 12
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا اور اگر وہ تجھ پر ( یہ ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اطاعت مت کر ، میری ہی طرف تم ( سب ) کو پلٹنا ہے سو میں تمہیں ان ( کاموں ) سے آگاہ کردوں گا جو تم ( دنیا میں ) کیا کرتے تھے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 11 اس آیت کے متعلق مسلم ، ترمذی ، احمد ، ابوداؤد اور نسائی کی روایت ہے کہ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ وہ 18 ۔ 19 سال کے تھے جب انہوں نے اسلام قبول کیا ، ان کی ماں حمنہ بنت سفیان بن امیہ ( ابو سفیان کی بھتیجی ) کو جب معلوم ہوا کہ بیٹا مسلمان ہوگیا ہے تو اس نے کہا کہ جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے گا میں نہ کھاؤں گی نہ پیوں گی ، نہ سائے میں بیٹھوں گی ، ماں کا حق ادا کرنا تو اللہ کا حکم ہے ، تو میری بات نہ مانے گا تو اللہ کی بھی نافرمانی کرے گا ۔ حضرت سعد اس پر سخت پریشان ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ماجرا عرض کیا ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ممکن ہے کہ ایسے ہی حالات سے دوسرے وہ نوجوان بھی دوچار ہوئے جو مکہ معظمہ کے ابتدائی دور میں مسلمان ہوئے تھے ۔ اسی لیے اس مضمون کو سورہ لقمان میں بھی پورے زور کے ساتھ دوہرایا گیا ہے ۔ ( ملاحظہ ہو آیت 15 ) آیت کا منشا یہ ہے کہ انسان پر مخلوقات میں سے کسی کا حق سب سے بڑھ کر ہے تو وہ اس کے ماں باپ ہیں ۔ لیکن ماں باپ بھی اگر انسان کو شرک پر مجبور کریں تو ان کی بات قبول نہ کرنی چاہیے ، کجا کہ کسی اور کے کہنے پر آدمی ایسا کرے ۔ پھر الفاط یہ ہیں کہ وَاِنْ جَاهَدٰكَ اگر وہ دونوں تجھے مجبور کرنے کے لیے اپنا پورا زور بھی لگا دیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کم تر درجے کا دباؤ ، یا ماں باپ میں سے کسی ایک کا زور دینا تو بدرجہ اولی رد کردینے کے لائق ہے ۔ اس کے ساتھ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ( جسے تو میرے شریک کی حیثیت سے نہیں جانتا ) کا فقرہ بھی قابل غور ہے ۔ اس میں ان کی بات نہ ماننے کے لیے ایک معقول دلیل دی گئی ہے ۔ ماں باپ کا یہ حق تو بے شک ہے کہ اولاد ان کی خدمت کرے ، ان کا ادب و احترام کرے ، ان کی جائز باتوں میں ان کی اطاعت بھی کرے ۔ لیکن یہ حق ان کو نہیں پہنچتا کہ آدمی اپنے علم کے خلاف ان کی اندھی تقلید کرے ۔ کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک بیٹا یا بیٹی صرف اس بنا پر ایک مذہب کی پیروی کیے جائے کہ یہ اس کے ماں باپ کا مذہب ہے ۔ اگر اولاد کو یہ علم حاصل ہوجائے کہ والدین کا مذہب غلط ہے تو اسے اس مذہب کو چھوڑ کر صحیح مذہب اختیار کرنا چاہیے اور ان کے دباؤ ڈالنے پر بھی اس طریقے کی پیروی نہ کرنی چاہیے جس کی گمراہی اس پر کھل چکی ہو ۔ اور یہ معاملہ جب والدین کے ساتھ ہے تو پھر دنیا کے ہر شخص کے ساتھ بھی یہی ہونا چاہیے ۔ کسی شخص کی تقلید بھی جائز نہیں ہے جب تک آدمی یہ نہ جان لے کہ وہ شخص حق پر ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 12 یعنی یہ دنیا کی رشتہ داریاں اور ان کے حقوق تو بس اسی دنیا کی حد تک ہیں ۔ آخر کار ماں باپ کو بھی اور اولاد کو بھی اپنے خالق کے حضور پلٹ کر جانا ہے ، اور وہاں ہر ایک کی باز پرس اس کی شخصی ذمہ داری کی بنیاد پر ہونی ہے ۔ اگر ماں باپ نے اولاد کو گمراہ کیا ہے تو وہ پکڑے جائیں گے ، اگر اولاد نے ماں باپ کی خاطر گمراہی قبول کی ہے تو اسے سزا ملے گی ۔ اور اگر اولاد نے راہ راست اختیار کی اور ماں باپ کے جائز حقوق ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کی ، لیکن ماں باپ نے صرف اس قصور پر اسے ستایا کہ اس نے گمراہی میں ان کا ساتھ کیوں نہ دیا ، تو وہ اللہ کے مواخذے سے بچ نہ سکیں گے ۔
انسان کا وجود پہلے اپنی توحید پر مضبوطی کے ساتھ کاربند رہنے کا حکم فرما کر اب ماں باپ کے سلوک واحسان کا حکم دیتا ہے ۔ کیونکہ انہی سے انسان کا وجود ہوتا ہے ۔ باپ خرچ کرتا ہے اور پرورش کرتا ہے ماں محبت رکھتی ہے اور پالتی ہے ۔ دوسری آیت میں فرمان ہے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23؀ ) 17- الإسراء:23 ) اللہ تعالیٰ فیصلہ فرماچکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کی پوری اطاعت کرو ۔ ان دونوں یا ان میں سے ایک کا بڑھاپے کا زمانہ آجائے تو انہیں اف بھی نہ کہنا ڈانٹ ڈپٹ تو کہاں کی ؟ بلکہ ان کے ساتھ ادب سے کلام کرنا اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھکے رہنا اور اللہ سے ان کے لیے دعا کرنا کہا اے اللہ ان پر ایسا رحم کر جیسے یہ بچپن میں مجھ پر کیا کرتے تھے ۔ لیکن ہاں یہ خیال رہے کہ اگر یہ شرک کی طرف بلائیں تو ان کا کہا نہ ماننا ۔ سمجھ لو کہ تمہیں ایک دن میرے سامنے کھڑے ہونا ہے ۔ اس وقت میں اپنی پرستش کا اور میرے فرمان کے تحت ماں باپ کی اطاعت کرنے کا بدلہ دونگا ۔ اور نیک لوگوں کے ساتھ حشر کرونگا اگر تم نے اپنے ماں باپ کی وہ باتیں نہیں مانیں جو میرے احکام کے خلاف نہیں تو وہ خواہ کیسے ہی ہوں میں تمہیں ان سے الگ کر لونگا ۔ کیونکہ قیامت کے دن انسان اس کے ساتھ ہوگا جسے وہ دنیا میں چاہتا تھا ۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ ایمان والوں اور نیک عمل والوں کو میں اپنے صالح بندوں میں ملادونگا ۔ حضرت سعد فرماتے ہیں میرے بارے میں چار آیتیں اتریں جن میں سے ایک آیت یہ بھی ہے ۔ یہ اس لئے اتری کہ میری ماں نے مجھ سے کہا کہ اے سعد! کیا اللہ کا حکم میرے ساتھ نیکی کرنے کا نہیں ؟ اگر تو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے انکار نہ کیا تو واللہ میں کھانا پینا چھوڑ دونگی چنانچہ اس نے یہی کیا یہاں تک کہ لوگ زبردستی اس کا منہ کھول کر غذا حلق میں پہنچا دیتے تھے پس یہ آیت اتری ۔ ( ترمذی وغیرہ )