Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لِلَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِيۡلَـنَا وَلۡـنَحۡمِلۡ خَطٰيٰكُمۡ ؕ وَمَا هُمۡ بِحٰمِلِيۡنَ مِنۡ خَطٰيٰهُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ‌ؕ اِنَّهُمۡ لَـكٰذِبُوۡنَ‏ ﴿12﴾
کافروں نے ایمان والوں سے کہا کہ تم ہماری راہ کی تابعداری کرو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ بھی نہیں اٹھانے والے ، یہ تو محض جھوٹے ہیں ۔
و قال الذين كفروا للذين امنوا اتبعوا سبيلنا و لنحمل خطيكم و ما هم بحملين من خطيهم من شيء انهم لكذبون
And those who disbelieve say to those who believe, "Follow our way, and we will carry your sins." But they will not carry anything of their sins. Indeed, they are liars.
Kafiron ney eman walon say kaha kay tum humari raah ki taby daari kero tumharay gunah hum utha len gay halankay woh inn kay gunahon mein say kuch bhi nahi uthaney walay yeh to mehaz jhootay hain.
اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، انہوں نے ایمان والوں سے کہا کہ : ہمارے راستے کے پیچھے چلو تاکہ ہم تمہاری خطاؤں کا بوجھ اٹھالیں گے ۔ حالانکہ وہ ان کی خطاؤں کا ذرا بھی بوجھ نہیں اٹھا سکتے ، اور یہ لوگ یقینا بالکل جھوٹے ہیں ۔
اور کافر مسلمانوں سے بولے ہماری راہ پر چلو اور ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے ( ف۲٦ ) حالانکہ وہ ان کے گناہوں میں سے کچھ نہ اٹھائیں گے ، بیشک وہ جھوٹے ہیں ،
یہ کافر لوگ ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہمارے طریقے کی پیروی کرو اور تمہاری خطاؤں کو ہم اپنے اوپر لے لیں گے ۔ 17 حالانکہ ان کی خطاؤں میں سے کچھ بھی وہ اپنے اوپر لینے والے نہیں ہیں ، 18 وہ قطعا جھوٹ کہتے ہیں ۔
اور کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ تم ہماری راہ کی پیروی کرو اور ہم تمہاری خطاؤں ( کے بوجھ ) کو اٹھا لیں گے ، حالانکہ وہ ان کے گناہوں کا کچھ بھی ( بوجھ ) اٹھانے والے نہیں ہیں بیشک وہ جھوٹے ہیں
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 17 ان کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ اول تو زندگی بعد موت اور حشر و نشر اور حساب و جزا کی یہ باتیں سب ڈھکوسلا ہیں ۔ لیکن اگر بالفرض کوئی دوسری زندگی ہے اور اس میں کوئی باز پرس بھی ہوتی ہے تو ہم ذمہ لیتے ہیں کہ خدا کے سامنے ہم سارا عذاب اپنی گردن پر لے لیں گے ۔ تم ہمارے کہنے سے اس نئے دین کو چھوڑ دو اور اپنے دین آبائی کی طرف واپس آجاؤ ، روایات میں متعدد سرداران قریش کے متعلق یہ مذکور ہے کہ ابتدا جو لوگ اسلام قبول کرتے تھے ان سے مل کر یہ لوگ اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عمر کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ابو سفیان اور حرب بن امیہ بن خلف نے ان سے مل کر بھی یہی کہا تھا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 18 یعنی اول تو یہی ممکن ہے کہ کوئی شخص خدا کے ہاں کسی دوسرے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور کسی کے کہنے سے گناہ کرنے والا خود اپنے گناہ کی سزا پانے سے بچ جائے ، کیونکہ وہاں تو ہر شخص اپنے کیے کا آپ ذمہ دار ہے ۔ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۔ لیکن اگر بالفرض ایسا ہو بھی تو جس وقت کفر و شرک کا انجام ایک دھکتی ہوئی جہنم کی صورت میں سامنے آئے گا اس وقت کس کی یہ ہمت ہے کہ دنیا میں جو وعدہ اس نے کیا تھا اس کی لاج رکھنے کے لیے یہ کہہہ دے کہ حضور ، میرے کہنے سے جس شخص نے ایمان کو چھوڑ ارتداد کی راہ اختیار کی تھی ، آپ اسے معاف کر کے جنت میں بھیج دیں ، اور میں جہنم میں اپنے کفر کے ساتھ اس کے کفر کی سزا بھی بھگتنے کے لیے تیار ہوں ۔
گناہ کسی کا اور سزا دوسرے کو کفار قریش مسلمانوں کو بہکانے کے لئے ان سے یہ بھی کہتے تھے کہ تم ہمارے مذہب پر عمل کرو اگر اس میں کوئی گناہ ہو تو وہ ہم پر ۔ حالانکہ یہ اصولا غلط ہے کہ کسی کا بوجھ کوئی اٹھائے ۔ یہ بالکل دروغ گو ہیں ۔ کوئی اپنے قرابتداروں کے گناہ بھی اپنے اوپر نہیں لے سکتا ۔ دوست دوست کو اس دن نہ پوچھے گا ۔ ہاں یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے ان کے بوجھ بھی ان پر لادے جائیں گے مگر وہ گمراہ ہلکے نہ ہوں گے ۔ ان کا بوجھ ان پر ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لِيَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ 25؀ۧ ) 16- النحل:25 ) یعنی یہ اپنے کامل بوجھ اٹھائیں گے اور جنہیں بہکایا تھا ان کے بہکانے کا گناہ بھی ان پر ہوگا ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جو ہدایت کی طرف لوگوں کو دعوت دے ۔ قیامت تک جو لوگ اس ہدایت پر چلیں گے ان سب کو جتنا ثواب ہوگا اتنا ہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان کے ثوابوں میں سے گھٹ کر نہیں ۔ اسی طرح جس نے برائی پھیلائی اس پر جو بھی عمل پیراہوں ان سب کو جتنا گناہ ہوگا اتناہی اس ایک کو ہوگا لیکن ان گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تمام رسالت پہنچا دی آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ظلم سے بچو کیونکہ قیامت والے دن اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا مجھے اپنی عزت کی اور اپنے جلال کی قسم آج ایک ظالم کو بھی میں نہ چھوڑونگا ۔ پھر ایک منادیٰ ندا کرے گا کہ فلاں فلاں کہاں ہے؟ وہ آئے گا اور پہاڑ کے پہاڑ نیکیوں کے اس کے ساتھ ہونگے یہاں تک کہ اہل محشر کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں گی ۔ وہ اللہ کے سامنے آکر کھڑا ہوجائے گا پھر منادیٰ ندا کرے گا کہ اس طرف سے کسی کا کوئی حق ہو اس نے کسی پر ظلم کیا ہو وہ آجائے اور اپنا بدلہ لے لے ۔ اب تو ادھر ادھر سے لوگ اٹھ کھڑے ہونگے اور اسے گھیر کر اللہ کے سامنے کھڑے ہوجائیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے ان بندوں کو ان کے حق دلواؤ ۔ فرشتے کہیں گے اے اللہ کیسے دلوائیں؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کی نیکیاں لو اور انہیں دو چنانچہ یوں ہی کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک نیکی باقی نہیں رہے گی اور ابھی تک بعض مظلوم اور حقدار باقی رہ جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا انہیں بھی بدلہ دو فرشتے کہیں گے اب تو اس کے پاس ایک نیکی بھی نہیں رہی ۔ اللہ تعالیٰ حکم دے گا ان کے گناہ اس پرلادو ۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گھبرا کر اس آیت کی تلاوت فرمائی ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ 13۝ۧ ) 29- العنكبوت:13 ) ابن ابی حاتم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) قیامت کے دن مومن کی تمام کوششوں سے سوال کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کی آنکھوں کے سرمے اور اس کے مٹی کے گوندھے سے بھی ۔ دیکھ ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن کوئی اور تیری نیکیاں لے جائے ۔