Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰى قَوۡمِهٖ فَلَبِثَ فِيۡهِمۡ اَ لۡفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمۡسِيۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوۡفَانُ وَهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ‏ ﴿14﴾
اور ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال تک رہے پھر تو انہیں طوفان نے دھر پکڑا اور وہ تھے ظالم ۔
و لقد ارسلنا نوحا الى قومه فلبث فيهم الف سنة الا خمسين عاما فاخذهم الطوفان و هم ظلمون
And We certainly sent Noah to his people, and he remained among them a thousand years minus fifty years, and the flood seized them while they were wrongdoers.
Aur hum ney nooh ( alh-e-salam ) ko unn ki qom ki taraf bheja woh unn mein sarhay no so saal tak rahey phir to unhen toofan ney dhar pakra aur woh thay bhi zalim.
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تھا ، چنانچہ پچاس کم ایک ہزار سال تک وہ ان کے درمیان رہے ، پھر ان کو طوفان نے آپکڑا ، اور وہ ظالم لوگ تھے ۔
اور بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا ( ف۳۰ ) تو انھیں طوفان نے آ لیا اور وہ ظالم تھے ( ف۳۱ )
ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا 21 اور وہ پچاس کم ایک ہزار برس ان کے درمیان رہا ۔ 22 آخرکار ان لوگوں کو طوفان نے آگھیرا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے ۔ 23
اور بیشک ہم نے نوح ( علیہ السلام ) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس برس کم ایک ہزار سال رہے ، پھر ان لوگوں کو طوفان نے آپکڑا اس حال میں کہ وہ ظالم تھے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 21 تقابل کے لیے ملاحظۃ ہو آل عمران آیات 33 ۔ 34 ۔ النساء ، 163 ۔ الانعام 84 ۔ الاعراف 59 تا 64 ۔ یونس 71 ۔ 73 ۔ ہود 25 ۔ 48 ۔ الانبیاء 76 ۔ 77 ۔ المومنون 23 ۔ 30 ۔ الفرقان 37 ۔ الشعرا 105 تا 123 ۔ الصافات 75 ۔ 82 ۔ القمر 9 ۔ 15 ۔ الحاقہ 11 ۔ 12 ۔ نوح مکمل ۔ یہ قصے یہاں جس مناسبت سے بیان کیے جارہے ہیں اس کو سمجھنے کے لیے سورہ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا چاہیے وہاں ایک طرف اہل ایمان سے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان سب اہل ایمان کو آزمائش میں ڈالا ہے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں ۔ دوسری طرف ظالم کافروں سے فرمایا گیا ہے کہ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم ہم سے بازی لے جاؤ گے اور ہماری گرفت سے بچ نکلو گے ۔ انہی دو باتوں کو ذہن نشین کرنے کے لیے یہ تاریخی واقعات بیان کیے جارہے ہیں ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 22 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حضرت نوح کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے کے بعد سے طوفان تک پورے ساڑھے نو سو برس حضرت نوح اس ظالم و گمراہ قوم کی اصلاح کے لیے سعی فرماتے رہے ، اور اتنی طویل مدت تک ان کی زیادتیاں برداشت کرنے پر بھی انہوں نے ہمت نہ ہاری ، یہی چیز یہاں بیان کرنی مقصود ہے ۔ اہل ایمان کو بتایا جارہا ہے کہ تم کو تو ابھی پانچ سات برس ہی ظلم و ستم سہتے اور ایک گمراہ قوم کی ہٹ دھرمیاں برداشت کرتے گزرے ہیں ۔ ذرا ہمارے اس بندے کے صبر و ثبات اور عزم و استقلال کو دیکھو جس نے مسلسل ساڑھے نو صدیوں تک ان شدائد کا مقابلہ کیا ۔ حضرت نوح کی عمر کے بارے میں قرآن مجید اور بائیبل کے بیانات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ان کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی ۔ وہ چھ سو برس کے تھے جب طوفان آیا ۔ اور اس کے بعد ساڑھے تین سو برس اور زندہ رہے ( پیدائش ، باب7 ۔ آیت 6 ۔ باب 9 ۔ آیت 28 ۔ 29 ) لیکن قرآن کے بیان کی رو سے ان کی عمر کم از کم ایک ہزار سال ہونی چاہیے کیونکہ ساڑھے نو سو سال تو صرف وہ مدت ہے جو نبوت پر مامور ہونے کے بعد سے طوفان برپا ہونے تک انہوں نے دعوت و تبلیغ میں صرف کی ۔ ظاہر ہے کہ نبوت انہیں پختہ عمر کو پہنچنے کے بعد ہی ملی ہوگی ۔ اور طوفان کے بعد بھی وہ کچھ مدت زندہ رہے ہوں گی ۔ یہ طویل عمر بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے ۔ لیکن خدا کی اس خدائی میں عجائب کی کمی نہیں ہے ، جس طرف بھی آدمی نگاہ ڈالے اس کی قدرت کے کرشمے غیر معمولی واقعات کی شکل میں نظر آجاتے ہیں ۔ کچھ واقعات و حالات کا اولاد ایک خاص صورت میں رونما ہوتے رہنا اس بات کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے کہ اس معمول سے ہٹ کر کسی دوسری غیر معمولی صورت میں کوئی واقعہ رونما نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح کے مفروضات کو توڑنے کے لیے کائنات کے ہر گوشے میں اور مخلوقات کی ہر صنف میں خلاف معمول حالات و واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے ۔ خصوصیت کے ساتھ جو شخص خدا کے قادر مطلق ہونے کا واضح تصور اپنے ذہن میں رکھتا ہو وہ تو کبھی اس غلط فہمی میں نہیں پڑ سکتا کہ کسی انسان کو ایک ہزار برس یا اس سے کم و بیش عمر عطا کردینا اس خدا کے لیے بھی ممکن نہیں ہے جو موت و حیات کا خالق ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر خود چاہے تو ایک لمحہ کے لیے بھی زندہ نہیں رہ سکتا ۔ لیکن اگر خدا چاہے تو جب تک وہ چاہے اسے زندہ رکھ سکتا ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 23 یعنی طوفان ان پر اس حالت میں آیا کہ وہ اپنے ظلم پر قائم تھے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر وہ طوفان آنے سے پہلے اپنے ظلم سے باز آجاتے تو اللہ تعالی ان پر یہ عذاب نہ بھیجتا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی ہے ۔ آپ کو خبر دی جاتی ہے کہ نوح علیہ السلام اتنی لمبی مدت تک اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلاتے رہے ۔ دن رات پوشیدہ اور ظاہر ہر طرح آپ نے انہیں اللہ کی دین کی طرف دعوت دی ۔ لیکن وہ اپنی سرکشی اور گمراہی میں بڑھتے گئے ۔ بہت ہی کم لوگ آپ پر ایمان لائے آخرکار اللہ کا غضب ان پر بصورت طوفان آیا اور انہیں تہس نہس کردیا تو اے پیغمبر آخرالزمان آپ اپنی قوم کی اس تکذیب کو نیا خیال نہ کریں ۔ آپ اپنے دل کو رنجیدہ نہ کریں ہدایت وضلالت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جن لوگوں کا جہنم میں جانا طے ہوچکا ہے انہیں تو کوئی بھی ہدایت نہیں دے سکتا ۔ تمام نشانیاں گو دیکھ لیں لیکن انہیں ایمان نصیب نہیں ہونے کا بالآخر جیسے نوح علیہ السلام کو نجات ملی اور قوم ڈوب گئی اسی طرح آخر میں غلبہ آپ کا ہے اور آپ کے مخالفین پست ہوں گے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ چالیس سال کی عمر میں نوح علیہ السلام کو نبوت ملی اور نبوت کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ نے اپنی قوم کو تبلیغ کی ۔ طوفان کی عالمگیر ہلاکت کے بعد بھی نوح علیہ السلام ساٹھ سال تک زندہ رہے یہاں تک کہ بنو آدم کی نسل پھیل گئی اور دنیا میں یہ بہ بکثرت نظر آنے لگے ۔ قتادہ فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کی عمر کل ساڑھے نو سو سال کی تھی تین سو سال تو آپ کے بےدعوت ان میں گذرے تین سو سال تک اللہ کی طرف اپنی قوم کو بلایا اور ساڑے تین سو سال بعد طوفان کے زندہ رہے لیکن یہ قول غریب ہے اور آیت کے ظاہر الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ساڑھے نو سو سال تک اپنی قوم کو اللہ کی وحدانیت کی طرف بلاتے رہے ۔ عون بن ابی شداد کہتے ہیں کہ جب آپ کی عمر ساڑھے تین سو سال کی تھی اس وقت اللہ کی وحی آپ کو آئی اس کے بعد ساڑھے نو سو سال تک آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد پھر ساڑھے تین سو سال کی عمر اور پائی ۔ لیکن یہ بھی غریب قول ہے ۔ زیادہ درست قول ابن عباس کا قول نظر آتا ہے واللہ اعلم ۔ ابن عمر نے مجاہد سے پوچھا کہ نوح علیہ السلام اپنی قوم میں کتنی مدت تک رہے؟ انہوں نے کہا ساڑھے نو سو سال ۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے بعد سے لوگوں کے اخلاق ان کی عمریں اور عقلیں آج تک گھٹتی ہی چلی آئیں ۔ جب قوم نوح پر اللہ کا غضب نازل ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اپنے نبی کو اور ایمان والوں کو جو آپ کے حکم سے طوفان سے پہلے کشتی میں سوار ہوچکے تھے بچالیا ۔ سورۃ ہود میں اس کی تفصیل گزرچکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ وارد نہیں کرتے ۔ ہم نے اس کشتی کو دنیا کے لئے نشان بنادیا یا تو خود اس کشتی کو جیسے حضرت قتادۃ کا قول ہے کہ اول اسلام تک وہ جودی پہاڑ پر تھی ۔ یا یہ کہ کشتی کو دیکھ کر پھر پانی کے سفر کے لئے جو کشتیاں لوگوں نے بنائیں ان کو انہیں دیکھ کر اللہ کا وہ بچانا یاد آجاتا ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ 41؀ۙ ) 36-يس:41 ) ہماری قدرت کی نشانی ان کے لئے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں بٹھا دیا ۔ اور ہم نے ان کے لئے اور اسی جیسی سواریاں بنادیں ۔ سورۃ الحاقہ میں فرمایا جب پانی کا طوفان آیا تو ہم نے تمہیں کشتی میں بٹھالیا ۔ اور ان کا ذکر تمہارے لئے یادگار بنادیا تاکہ جن کانوں کو اللہ نے یاد کی طاقت دی ہے وہ یاد رکھ لیں ۔ یہاں شخص سے جنس کی طرف چڑھاؤ کیا ہے ۔ جیسے آیت ( وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَجَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّـيٰطِيْنِ وَاَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيْرِ Ĉ۝ ) 67- الملك:5 ) والی آیت میں ہے کہ آسمان دنیا کے ستاروں دنیا کے ستاروں کا باعث زینت آسمان ہونا بیان فرما کر ان کی وضاحت میں شہاب کا شیطانوں کے لئے رجم ہونا بیان فرمایا ہے ۔ اور آیت میں انسان کے مٹی سے پیدا ہونے کا ذکر کرکے فرمایا ہے پھر ہم نے اسے نطفے کی شکل میں قرار گاہ میں کردیا ۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیت میں ھا کی ضمیر کا مرجع عقوبت اور سزا کو کیا جائے واللہ اعلم ( یہاں یہ خیال رہے کہ تفسیر ابن کثیر کے بعض نسخوں میں شروع تفسیر میں کچھ عبارت زیادہ ہے جو بعض نسخوں میں نہیں ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کا ساڑھے نو سو سال تک آزمایا جانا بیان کیا اور ان کے قول کو ان کی اطاعت کے ساتھ آزمانا بتلایا کہ ان کی تکذیب کی وجہ سے اللہ نے انہیں غرق کردیا ۔ پھر اس کے بعد جلادیا ۔ پھر قوم ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا کہ انہوں نے بھی اطاعت ومتابعت نہ کی پھر لوط علیہ السلام کی آزمائش کا ذکر کیا اور ان کی قوم کا حشر بیان فرمایا ۔ پھر حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے واقعات سامنے رکھے پھر عادیوں ، ثمودیوں ، قارونیوں ، فرعونیوں ، ہامانیوں وغیرہ کا ذکر کیا کہ اللہ پر ایمان لانے اور اس کی توحید کو نہ ماننے کی وجہ سے انہیں بھی طرح طرح کی سزائیں دی گئیں ۔ پھر اپنے پیغمبر اعظم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین اور منافقین سے تکالیف سہنے کا ذکر کیا اور آپ کو حکم دیا کہ اہل کتاب سے بہترین طریق پر مناظرہ کریں )