Surah

Information

Surah # 2 | Verses: 286 | Ruku: 40 | Sajdah: 0 | Chronological # 87 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD). Except 281 from Mina at the time of the Last Hajj
وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ‌ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ‌ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ‌ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ‏ ﴿25﴾
اور ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ان جنتوں کی خوشخبریاں دو جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ جب کبھی وہ پھلوں کا رزق دئیے جائیں گے اور ہم شکل لائے جائیں گے تو کہیں گے یہ وہی ہے جو ہم اس سے پہلے دئیے گئے تھے اور ان کے لئے بیویاں ہیں صاف ستھری اور وہ ان جنتوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔
و بشر الذين امنوا و عملوا الصلحت ان لهم جنت تجري من تحتها الانهر كلما رزقوا منها من ثمرة رزقا قالوا هذا الذي رزقنا من قبل و اتوا به متشابها و لهم فيها ازواج مطهرة و هم فيها خلدون
And give good tidings to those who believe and do righteous deeds that they will have gardens [in Paradise] beneath which rivers flow. Whenever they are provided with a provision of fruit therefrom, they will say, "This is what we were provided with before." And it is given to them in likeness. And they will have therein purified spouses, and they will abide therein eternally.
Aur eman walon aur nek amal kerney walon ko unn jannaton ki khushkhabriyan do jin kay neechay nehren beh rahi hain. Jab kabhi woh phalon ka rizq diye jayen gay aur hum shakal laye jayen gay to kahen gay yeh wohi hain jo hum iss say pehlay diye gaye thay aur unn kay liye biwiyan hain saaf suthri aur unn jannaton mein hamesha rehney walay hain.
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغات ( تیار ) ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ( ٢٠ ) جب کبھی ان کو ان ( باغات ) میں سے کوئی پھل رزق کے طور پر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے ’’ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا‘‘ اور انہیں وہ رزق ایسا ہی دیا جائے گا جو دیکھنے میں ملتا جلتا ہوگا ( ٢١ ) اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان ( باغات ) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔
اور خوشخبری دے ، انہیں جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے ، کہ ان کے لئے باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں رواں ( ف٤۱ ) جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا ، ( صورت دیکھ کر ) کہیں گے ، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے ملا تھا ( ف٤۲ ) اور وہ ( صورت میں ) ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لئے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں ( ف٤۳ ) اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ۔ ( ف٤٤ )
اور اے پیغمبر ، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور ﴿اس کے مطابق﴾ اپنے عمل درست کر لیں ، انہیں خوشخبری دے دو کہ ان کے لیے ایسے باغ ہیں ، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔ ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہونگے ۔ جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائےگا ، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے ۔ ان 26 کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی ، اور27 وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے ۔
اور ( اے حبیب! ) آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لئے ( بہشت کے ) باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جب انہیں ان باغات میں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو ( اس کی ظاہری صورت دیکھ کر ) کہیں گے: یہ تو وہی پھل ہے جو ہمیں ( دنیا میں ) پہلے دیا گیا تھا ، حالانکہ انہیں ( صورت میں ) ملتے جلتے پھل دیئے گئے ہوں گے ، ان کے لئے جنت میں پاکیزہ بیویاں ( بھی ) ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے
سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :26 یعنی نِرالے اور اجنبی پَھل نہ ہوں گے ، جن سے وہ نامانوس ہوں ۔ شکل میں اُنہی پَھلوں سے ملتے جُلتے ہوں گے جن سے وہ دنیا میں آشنا تھے ۔ البتہ لذّت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے ۔ دیکھنے میں مثلاً آم اور انار اور سنترے ہی ہوں گے ۔ اہل جنّت ہر پھل کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا ۔ مگر مزے میں دنیا کے آموں اور اناروں اور سنتروں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہوگی ۔ سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :27 عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں ”جوڑے“ ۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ شوہر کے لیے بیوی ”زوج “ ہے اور بیوی کے لیے شوہر”زوج“ ۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے ۔ اگر دنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے ، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دُوسری نیک بیوی دے دی جائے گی ۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد ، تو وہاں وہ اس برے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا جائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا ۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں ، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا ۔
اعمال وجہ بشارت چونکہ پہلے کافروں اور دشمنان دین کی سزا عذاب اور رسوائی کا ذکر ہوا تھا اس لئے یہاں ایمانداروں اور نیک صالح لوگوں کی جزا ثواب اور سرخروئی کا بیان کیا گیا ہے ۔ قرآن کے مثانی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں جو صحیح تر قول بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون تقابلی جائزہ کے ساتھ ہوا ہے اس کا مفصل بیان بھی کسی مناسب جگہ آئے گا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے ساتھ ہی کفر کا ۔ کفر کے ساتھ ایمان کا ۔ نیکوں کے ساتھ بدوں کا ۔ اور بدوں کے ساتھ نیکوں کا ذکر ضرور آتا ہے جس چیز کا بیان ہوتا ہے اس کے مقابلہ کی چیز کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے چاہے معنی میں متشابہ ہوں ، یہ دونوں لفظ قرآن کے اوصاف میں وارد ہوئے ہیں اسے مثانی بھی کہا گیا ہے اور متشابہ بھی فرمایا گیا ہے ۔ جنتوں میں نہریں بہنا اس کے درختوں اور بالاخانوں کے نیچے بہنا ہے حدیث شریف میں ہے کہ نہریں بہتی ہیں لیکن گڑھا نہیں اور حدیث میں ہے کہ نہر کوثر کے دونوں کنارے سچے موتیوں کے قبے ہیں اس کی مٹی مشک خالص ہے اور اس کی کنکریاں لولو اور جواہر ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی یہ نعمتیں عطا فرمائے وہ احسان کرنے والا بڑا رحیم ہے حدیث میں ہے جنت کی نہریں مشکی پہاڑوں کے نیچے سے جاری ہوتی ہیں ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ مروی ہے جنتیوں کا یہ قول کہ پہلے بھی ہم کو یہ میوے دئے گئے تھے اس سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں بھی یہ میوے ہمیں ملے تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی تھے صحابہ اور ابن جریر نے بھی اس کی تائید کی ہے بعض کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم اس سے پہلے یعنی سابقہ کل بھی یہی دئیے گئے تھے یہ اس لئے کہیں گے کہ ظاہری صورت و شکل میں وہ بالکل مشابہ ہوں گے ۔ یحییٰ بن کثیر کہتے ہیں کہ ایک پیالہ آئے گا کھائیں گے پھر دوسرا آئے گا تو کہیں گے یہ تو ابھی کھایا ہے فرشتے کہیں گے کھائیے تو اگرچہ صورت شکل میں یکساں ہیں لیکن مزہ اور ہے ۔ فرماتے ہیں جنت کی گھاس زعفران ہے اس کے ٹیلے مشک کے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت غلمان ادھر ادھر سے میوے لا لا کر پیش کر رہے ہیں وہ کھا رہے ہیں وہ پھر پیش کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں اسے تو ابھی کھایا ہے وہ جواب دیتے ہیں حضرت رنگ روپ ایک ہے لیکن ذائقہ اور ہی ہے چکھ کر دیکھئے کھاتے ہیں تو اور ہی لطف پاتے ہیں یہی معنی ہیں کہ ہم شکل لائیں جائیں گے ۔ دنیا کے میووں سے بھی اور نام شکل اور صورت میں بھی ملتے جلتے ہوں گے لیکن مزہ کچھ دوسرا ہی ہو گا ۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ صرف نام میں مشابہت ہے ورنہ کہاں یہاں کی چیز کہاں وہاں کی؟ یہاں تو فقط نام ہی ہے عبدالرحمن کا قول ہے دنیا کے پھلوں جیسے پھل دیکھ کر کہیہ دیں گے کہ یہ تو دنیا میں کھا چکے ہیں مگر جب چکھیں گے تو لذت کچھ اور ہی ہو گی ۔ وہاں جو بیویاں انہیں ملیں گی وہ گندگی ناپاکی حیض و نفاس پیشاب ، پاخانہ ، تھوک ، رینٹ ، منی وغیرہ سے پاک صاف ہوں گی حضرت حوا علیہما السلام بھی حیض سے پاک تھیں لیکن نافرمانی سرزد ہوتے ہی یہ بلا آ گئی یہ قول سنداً غریب ہے ایک غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ حیض پاخانہ تھوک رینٹ سے وہ پاک ہیں ۔ اس حدیث کے راوی عبدالرزاق بن عمر یزیعی ہیں مستدرک حاکم میں بیان کیا جنہیں ابو حاتم البستی نے احتجاج کے قابل نہیں سمجھا ۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث نہیں بلکہ حضرت قتادہ کا قول ہے واللہ اعلم ۔ ان تمام نعمتوں کے ساتھ اس زبردست نعمت کو دیکھئے کہ نہ یہ نعمتیں فنا ہوں ۔ نہ نعمتوں والے فنا ہوں نہ نعمتیں ان سے چھنیں نہ یہ نعمتوں سے الگ کئے جائیں ۔ نہ موت ہے نہ خاتمہ ہے نہ آخر ہے نہ ٹوٹنا اور کم ہونا ہے اللہ رب العالمین جواد و کریم برورحیم سے التجا ہے کہ وہ مالک ہمیں بھی اہل جنت کے زمرے میں شامل کرے اور انہیں کے ساتھ ہمارا حشر کرے ۔ آمین ۔