Surah

Information

Surah # 29 | Verses: 69 | Ruku: 7 | Sajdah: 0 | Chronological # 85 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 1-11, from Madina
وَمَا كُنۡتَ تَـتۡلُوۡا مِنۡ قَبۡلِهٖ مِنۡ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّهٗ بِيَمِيۡنِكَ‌ اِذًا لَّارۡتَابَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ‏ ﴿48﴾
اس سے پہلے تو آپ کوئی کتاب پڑھتے اورنہ تھے نہ کسی کتاب کو اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے کہ یہ باطل پرست لوگ شک و شبہ میں پڑتے ۔
و ما كنت تتلوا من قبله من كتب و لا تخطه بيمينك اذا لارتاب المبطلون
And you did not recite before it any scripture, nor did you inscribe one with your right hand. Otherwise the falsifiers would have had [cause for] doubt.
Iss say pehlay to aap koi kitab parhtay na thay aur na kissi kitab ko apnay hath say likhtay thay kay batil parast log shak-o-shuba mein partay.
اور تم اس سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے تھے ، اور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ۔ اگر ایسا ہوتا تو باطل والے میں میخ نکال سکتے تھے ۔ ( ٢٨ )
اور اس ( ف۱۲۰ ) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا ( ف۱۲۱ ) تو باطل ضرور شک لاتے ( ف۱۲۲ )
۔ ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے ۔ 88
اور ( اے حبیب! ) اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی آپ اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ اہلِ باطل اسی وقت ضرور شک میں پڑ جاتے
سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 88 یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے ثبوت میں وہی استدلال ہے جو اس سے پہلے سورہ یونس اور سورہ قصص میں گزر چکا ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، تفسیر سورہ یونس حاشیہ نمبر 21 و تفسیر سورہ قصس حاشیہ نمبر 64 و 109 ۔ اس مضمون کی مزید تشریح کے لیے تفہیم القرآن ، تفسیر سورہ نحل حاشیہ 107 ، بنی اسرائیل حاشیہ 105 ، المومنون حاشیہ 66 ، الفرقان حاشیہ 12 ، اور الشوری حاشیہ 84 کا مطالعہ بھی مفید ہوگا ) اس آیت میں استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پڑھ تھے ۔ آپ کے اہل وطن اور رشتہ و برادری کے لوگ جن کے درمیان روز پیدائش سے سن کہلوت کو پہنچنے تک آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی تھی ، اس بات سے خوب واقف تھے کہ آپ نے عمر بھر نہ کبھی کوئی کتاب پڑھی ، نہ کبھی قلم ہاتھ میں لیا ۔ اس امر واقعہ کو پیش کر کے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ یہ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت ہے کہ کتب آسمانی کی تعلیمات ، انبیاء سابقین کے حالات ، مذاہب و ادیان کے عقائد ، قدیم قوموں کی تاریخ اور تمدن و اخلاق و معیشت کے اہم مسائل پر جس وسیع اور گہرے علم کا اظہار اس امی کی زبان سے ہورہا ہے یہ اس کو وحی کے سوا کسی دوسرے ذریعہ سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا ۔ اگر اس کو نوشت و خواند کا علم ہوتا اور لوگوں نے کبھی اسے کتابیں پڑھتے اور مطالعہ و تحقیق کرتے دیکھا ہوتا تو باطل پرستوں کے لیے یہ شک کرنے کی کچھ بنیاد ہو بھی سکتی تھی کہ یہ علم وحی سے نہیں بلکہ اخذ و اکتساب سے حاصل کیا گیا ہے ۔ لیکن اس کی امیت نے تو ایسے کسی شک کے لیے برائے نام بھی کوئی بنیاد باقی نہیں چھوڑی ہے ۔ اب خالص ہٹ دھرمی کے سوا اس کی بناوٹ کا انکار کرنے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے جسے کسی درجہ میں بھی معقول کیا جاسکتا ہو ۔