Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰى يَكُوۡنُ لِىۡ وَلَدٌ وَّلَمۡ يَمۡسَسۡنِىۡ بَشَرٌ ‌ؕ قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ‌ ؕ اِذَا قَضٰٓى اَمۡرًا فَاِنَّمَا يَقُوۡلُ لَهٗ كُنۡ فَيَكُوۡنُ‏ ﴿47﴾
کہنے لگیں الہٰی مجھے لڑکا کیسے ہوگا؟ حالانکہ مجھے تو کسی انسان نے ہاتھ بھی نہیں لگایا فرشتے نے کہا اسی طرح اللہ تعالٰی جو چاہے پیدا کرتا ہے جب کبھی وہ کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے ۔
قالت رب انى يكون لي ولد و لم يمسسني بشر قال كذلك الله يخلق ما يشاء اذا قضى امرا فانما يقول له كن فيكون
She said, "My Lord, how will I have a child when no man has touched me?" [The angel] said, "Such is Allah ; He creates what He wills. When He decrees a matter, He only says to it, 'Be,' and it is.
Kehney lagin ilahee mujhay larka kaisay hoga? Halankay mujhay to kissi insan ney haath bhi nahi lagaya farishtay ney kaha issi tarah Allah Taalaa jo chahaye peda kerta hai jab kabhi woh kissi kaam ko kerna chahata hai to sirf yeh keh deta hai kay ho ja! To woh ho jata hai.
مریم نے کہا : پروردگار مجھ سے لڑکا کیسے پیدا ہوجائے گا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں؟ اللہ نے فرمایا : اللہ اسی طرح جس کو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ۔ جب وہ کوئی کام کرنے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ‘‘ ہوجا ’’ بس وہ ہوجاتا ہے ۔
فرمایا اللہ یوں ہی پیدا کرتا ہے جو چاہے جب ، کسی کام کا حکم فرمائے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے ،
یہ سن کر مریم بولی پروردگار! ’’میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا ، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا‘‘ ۔ جواب ملا’’ ایسا ہی ہوگا ، 44 اللہ جو چاھتا ہے پیدا کرتا ہے ۔ وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے ‘‘ ۔
۔ ( مریم علیہا السلام نے ) عرض کیا: اے میرے رب! میرے ہاں کیسے لڑکا ہوگا درآنحالیکہ مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا ، ارشاد ہوا: اسی طرح اﷲ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے ، جب کسی کام ( کے کرنے ) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہو جاتا ہے
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :44 یعنی باوجود اس کے کہ کسی مرد نے تجھے ہاتھ نہیں لگایا ، تیرے ہاں بچہ پیدا ہو گا ۔ یہی لفظ کَذٰلِکَ ( ایسا ہی ہو گا ) حضرت زکریا کے جواب میں بھی کہا گیا تھا ۔ اس کا جو مفہوم وہاں ہے وہی یہاں بھی ہونا چاہیے ۔ نیز بعد کا فقرہ بلکہ پچھلا اور اگلا سارا بیان اسی معنی کی تائید کر تا ہے کہ حضرت مریم علیہ السلام کو صنفی مواصلت کے بغیر بچہ پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی اور فی الواقع اسی صورت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی ۔ ورنہ اگر بات یہی تھی کہ حضرت مریم علیہ السلام کے ہاں اسی معروف فطری طریقہ سے بچہ پیدا ہونے والا تھا جس طرح دنیا میں عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے ، اور اگر حضرت عیسیٰ کی پیدائش فی الواقع اسی طرح ہوئی ہوتی تو یہ سارا بیان قطعی مہمل ٹھیرتا ہے جو چوتھے رکوع سے چھٹے رکوع تک چلا جا رہا ہے ، اور وہ تمام بیانات بھی بے معنی قرار پاتے ہیں جو ولادت مسیح علیہ السلام کے باب میں قرآن کے دوسرے مقامات پر ہمیں ملتے ہیں ۔ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الٰہ اور ابن اللہ اسی وجہ سے سمجھا تھا کہ ان کی پیدائش غیر فطری طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی ، اور یہودیوں نے حضرت مریم علیہ السلام پر الزام بھی اسی وجہ سے لگایا کہ سب کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک لڑکی غیر شادی شدہ تھی اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ۔ اگر یہ سرے سے واقعہ ہی نہ تھا تب ان دونوں گروہوں کے خیالات کی تردید میں بس اتنا کہہ دینا بالکل کافی تھا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو ، وہ لڑکی شادی شدہ تھی ، فلاں شخص اس کا شوہر تھا ، اور اسی کی نطفے سے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے ۔ یہ مختصر سی دو ٹوک بات کہنے کے بجائے آخر اتنی لمبی تمہید اٹھانے اور پیچ در پیچ باتیں کرنے اور صاف صاف مسیح بن فلاں کہنے کے بجائے مسیح بن مریم کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی جس سے بات سلجھنے کے بجائے اور الجھ جائے ۔ پس جو لوگ قرآن کو کلام اللہ مانتے ہیں اور پھر مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ولادت حسب معمول باپ اور ماں کے اتصال سے ہوئی تھی وہ دراصل ثابت یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اظہار ما فی الضمیر اور بیان مدعا کی اتنی قدرت بھی نہیں رکھتا جتنی خود یہ حضرات رکھتے ہیں ( معاذاللہ ) ۔