Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يَّشۡتَرِىۡ لَهۡوَ الۡحَدِيۡثِ لِيُضِلَّ عَنۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ‌ۖ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ‌ؕ اُولٰٓٮِٕكَ لَهُمۡ عَذَابٌ مُّهِيۡنٌ‏ ﴿6﴾
اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو باتوں کو مول لیتے ہیں کہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں اور اسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے ۔
و من الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله بغير علم و يتخذها هزوا اولىك لهم عذاب مهين
And of the people is he who buys the amusement of speech to mislead [others] from the way of Allah without knowledge and who takes it in ridicule. Those will have a humiliating punishment.
Aur baaz log aisay bhi hain jo laghaw baaton ko mol letay hain kay bey-ilmi kay sath logon ko Allah ki raah say behkayen aur ussay hansi banayen yehi woh log hain jin kay liye ruswa kerney wala azab hai.
اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں ۔ ( ١ ) تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں ، اور اس کا مذاق اڑائیں ۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کر کے رکھ دے گا ۔
اور کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں ( ف۲ ) کہ اللہ کی راہ سے بہکا دیں بےسمجھے ( ف۳ ) اور اسے ہنسی بنالیں ، ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے ،
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے 5 جو کلام دلفریب 6 خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر 7 بھٹکا دے اور اس راستے کی دعوت کو مذاق میں اڑا دے 8 ۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے 9 ۔
اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس ( راہ ) کا مذاق اڑائیں ، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :5 یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کر رہے ہیں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :6 اصل لفظ ہیں لَھُوَ الْحَدِیث یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کر کے ہر دوسری چیز سے غافل کر دے ۔ لغت کے اعتبار سے تو ان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے ۔ لیکن استعمال میں ان کا اطلاق بری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے ، مثلاً گپ ، خرافات ، ہنسی مذاق ، داستانیں ، افسانے اور ناول ، گانا بجانا ، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔ لہو الحدیث خریدنے کا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ وہ حدیث حق کو چھوڑ کر حدیث باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ موڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں ۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں ۔ حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صرف کر کے کوئی بیہودہ چیز خریدے ۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں ۔ ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ وسلم کی دعوت کفار مکہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جا رہی تھی تو نَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کر رہے ہو اس سے کام نہ چلے گا ۔ یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے ۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہتر آدمی تھا ۔ سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا ۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے ، ساحر ہے ، شاعر ہے ، مجنوں ہے ۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا ۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے ناواقف ہیں ؟کیا لوگوں کو جنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے ؟ ان الزامات میں سے کونسا الزام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے ۔ ٹھہرو ، اس کا علاج میں کرتا ہوں ۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفندیار کی داستانیں لا کر اس نے قصہ گوئی کی محفلیں برپا کرنا شروع کر دیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھو جائیں ( سیرۃ ابن ہشام ، ج ۱ ، ص۳۲۰ ۔ ۳۲۱ ) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے ۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں ۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کر دیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سنا تاکہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے ۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابر مجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں ۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود ( کلچر ) میں غرق کر دینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اس عالم مستی میں ان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے ۔ لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مراد ہے ؟ انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھو واللہ الغناء ، خدا کی قسم اس سے مراد گانا ہے ۔ ( ابن جریر ) ابن ابی شیبہ ، حاکم بیہقی ) ۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس ، جابر بن عبداللہ ، مجاہد ، عِکرمہ ، سعید بن جُبیر ، حسن بصری اور مَکُحول رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ۔ ابن ابی جریر ، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابو امامہ باہلی کی یہ روایت نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولا التجارۃ فیھن ولا اثمانھن مغنیہ عورتوں کا بیچنا اور خریدنا اور ان کی تجارت کرنا حلال نہیں ہے اور نہ ان کی قیمت لینا حلال ہے ۔ ایک دوسری روایت میں آخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام ۔ ان کی قیمت کھانا حرام ہے ۔ ایک اور روایت انہی ابو امامہ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لا یحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام ۔ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے ، اور ان کی قیمت حرام ہے ۔ ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیثِ ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک کے حوالہ سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من جلس الیٰ قینۃ یسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک یَوم القیٰمۃ ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روز اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا ۔ ( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس زمانے میں بجانے کی ثقافت تمام تر ، بلکہ کلیۃً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی ۔ آزاد عورتیں اس وقت تک آرٹسٹ نہ بنی تھیں ۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مغنیات کی بیع و شرا کا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے ) ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :7 علم کے بغیر کا تعلق خریدتا ہے کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور بھٹکادے کے ساتھ بھی ۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفریب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے ۔ ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیات الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے ۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کر دینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کر کے انہیں حاصل کر رہا ہے ۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اٹھا ہے ، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلق خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کر کے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :8 یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کر کے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے ۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اڑا دیا جائے ۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خدا کی آیات سنانے نکلیں ، ادھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہو رہا ہو ، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو ، اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہو کر اس موڈ ہی میں نہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انہیں سنائی جا سکیں ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :9 یہ سزا ان کےجرم کی مناسبت سے ہے ۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں ۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت ذلت کا عذاب دے گا ۔
لہو و لعب موسیقی اور لغو باتیں اوپر بیان ہوا تھا نیک بختوں کا جو کتاب اللہ سے ہدایت پاتے تھے اور اسے سن کر نفع اٹھاتے تھے ۔ تو یہاں بیان ہو رہا ہے ان بدبختوں کا جو کلام الٰہی کو سن کر نفع حاصل کرنے سے باز رہتے ہیں اور بجائے اس کے گانے بجانے باجے گاجے ڈھول تاشے سنتے ہیں چنانچہ اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قسم اللہ کی اس سے مراد گانا اور راگ ہے ۔ ایک اور جگہ ہے کہ آپ سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے تین دفعہ قسم کھاکر فرمایا کہ اس سے مقصد گانا اور راگ اور راگنیاں ہیں ۔ یہی قول حضرت ابن عباس ، جابر ، عکرمہ ، سعید بن جیبر ، مجاہد مکحول ، عمرو بن شعیب ، علی بن بذیمہ کاہے ۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں کہ یہ آیت گانے بجانے باجوں گاجوں کے بارے میں اتری ہے ۔ حضرت قتادۃ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد صرف وہی نہیں جو اس لہو ولعب میں پیسے خرچے یہاں مراد خرید سے اسے محبوب رکھنا اور پسند کرنا ہے ۔ انسان کو یہی گمراہی کافی ہے کہ لغو بات خریدنے سے مراد گانے والی لونڈیوں کی خریداری ہے چنانچہ ابن ابی حاتم وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت حلال نہیں اور ان کی قیمت کا کھانا حرام ہے انہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ امام ترمذی بھی اس حدیث کو لائے ہیں اور اسے غریب کہا ہے اور اس کے ایک راوی علی بن زید کو ضعیف کہا ہے ۔ میں کہتا ہوں خود علی ان کے استاد اور ان کے تمام شاگرد ضعیف ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ ضحاک کا قول ہے کہ مراد اس سے شرک ہے امام ابن جریر کا فیصلہ یہ ہے کہ ہر وہ کلام جو اللہ سے اور اتباع شرع سے روکے وہ اس آیت کے حکم میں داخل ہے ۔ اس سے غرض اس کی اسلام اور اہل اسلام کی مخالفت ہوتی ہے ۔ ایک قرأت میں لیضل ہے تو لام لام عاقبت ہوگا یالام عیل ہوگا ۔ یعنی امرتقدیری ان کی اس کارگذاری سے ہو کر رہے گا ۔ ایسے لوگ اللہ کی راہ کو ہنسی بنالیتے ہیں ۔ آیات اللہ کو بھی مذاق میں اڑاتے ہیں ۔ اب ان کا انجام بھی سن لو کہ جس طرح انہوں نے اللہ کی راہ کی کتاب اللہ کی اہانت کی قیامت کے دن ان کی اہانت ہوگی اور خطرناک عذاب میں ذلیل و رسوا ہونگے ۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ یہ نانصیب جو کھیل تماشوں باجوں گاجوں پر راگ راگنیوں پر ریجھا ہوا ہے ۔ یہ قرآن کی آیتوں سے بھاگتا ہے کان ان سے بہرے کرلیتا ہے یہ اسے اچھی نہیں معلوم ہوتیں ۔ سن بھی لیتا ہے تو بےسنی کردیتا ہے ۔ بلکہ انکا سننا اسے ناگوار گذرتا ہے کوئی مزہ نہیں آتا ۔ وہ اسے فضول کام قرار دیتا ہے چونکہ اس کی کوئی اہمیت اور عزت اس کے دل میں نہیں اس لئے وہ ان سے کوئی نفع حاصل نہیں کرسکتا وہ تو ان سے محض بےپرواہ ہے ۔ یہ یہاں اللہ کی آیتوں سے اکتاتا ہے توقیامت کے دن عذاب بھی وہ ہونگے کہ اکتا اکتا اٹھے ۔ یہاں آیات قرانی سن کر اسے دکھ ہوتا ہے وہاں دکھ دینے والے عذاب اسے بھگتنے پڑیں گے ۔