Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
وَاِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِا بۡنِهٖ وَهُوَ يَعِظُهٗ يٰبُنَىَّ لَا تُشۡرِكۡ بِاللّٰهِ ؔؕ اِنَّ الشِّرۡكَ لَـظُلۡمٌ عَظِيۡمٌ‏ ﴿13﴾
اور جب کہ لقمان نے وعظ کہتے ہوئے اپنے لڑکے سے فرمایا کہ میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے ۔
و اذ قال لقمن لابنه و هو يعظه يبني لا تشرك بالله ان الشرك لظلم عظيم
And [mention, O Muhammad], when Luqman said to his son while he was instructing him, "O my son, do not associate [anything] with Allah . Indeed, association [with him] is great injustice."
Aur jab kay luqman ney waaz kehtay huyey apnay larkay say farmaya kay meray piyaray bachay! Allah kay sath shareek na kerna be-shak shirk bara bhaari zulm hai.
اور وہ وقت یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ : میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ، یقین جانو شرک بڑا بھاری ظلم ہے ، ( ٦ )
اور یاد کرو جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ نصیحت کرتا تھا ( ف۱٦ ) اے میرے بیٹے اللہ کا کسی کو شریک نہ کرنا ، بیشک شرک بڑا ظلم ہے ( ف۱۷ )
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا بیٹا ! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ، 20 حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے 21
اور ( یاد کیجئے ) جب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا اور وہ اسے نصیحت کر رہا تھا: اے میرے فرزند! اﷲ کے ساتھ شرک نہ کرنا ، بیشک شِرک بہت بڑا ظلم ہے
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :20 لقمان کی حکیمانہ باتوں میں سے اس خاص نصیحت کو دو مناسبتوں کی بنا پر یہاں نقل کیا گیا ہے ۔ اول یہ کہ انہوں نے یہ نصیحت اپنے بیٹے کو کی تھی اور ظاہر بات ہے کہ آدمی دنیا میں سب سے بڑھ کر اگر کسی کے حق میں مخلص ہو سکتا ہے تو وہ اس کی اپنی اولاد ہی ہے ۔ ایک شخص دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے ، ان سے منافقانہ باتیں کر سکتا ہے ، لیکن اپنی اولاد کو تو ایک برے سے برا آدمی بھی فریب دینے کی کوشش کبھی نہیں کر سکتا ۔ اس لیے لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ان کے نزدیک شرک فی الواقع ایک بد ترین فعل تھا اور اسی بنا پر انہوں نے سب سے پہلی جس چیز کی اپنے لخت جگر کو تلقین کی وہ یہ تھی کہ اس گمراہی سے اجتناب کرے ۔ دوسری مناسبت اس حکایت کی یہ ہے کہ کفار مکہ میں سے بہت سے ماں باپ اس وقت اپنی اولاد کو دین شرک پر قائم رہنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت توحید سے منہ موڑ لینے پر مجبور کر رہے تھے ، جیسا کہ آگے کی آیات بتا رہی ہیں ۔ اس لئے ان نادانوں کو سنایا جا رہا ہے کہ تمہاری سرزمین کے مشہور حکیم نے تو اپنی اولاد کی خیر خواہی کا حق یوں ادا کیا تھا کہ اسے شرک سے پرہیز کرنے کی نصیحت کی ۔ اب تم جو اپنی اولاد کو اسی شرک پر مجبور کر رہے ہو تو یہ ان کے ساتھ بد خواہی ہے یا خیر خواہی؟ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :21 ظلم کے اصل معنی ہیں کسی کا حق مارنا اور انصاف کے خلاف کام کرنا ۔ شرک اس وجہ سے ظلم عظیم ہے کہ آدمی ان ہستیوں کو اپنے خالق اور رازق اور منعم کے برابر لا کھڑا کرتا ہے جن کا نہ اس کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ ، نہ اس کو رزق پہنچانے میں کوئی دخل ، اور نہ ان نعمتوں کے عطا کرنے میں کوئی شرکت جن سے آدمی اس دنیا میں متمتع ہو رہا ہے ۔ یہ ایسی بے انصافی ہے جس سے بڑھ کر کسی بے انصافی کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر آدمی پر اس کے خالق کا حق ہے کہ وہ صرف اسی کی بندگی و پرستش کرے ، مگر وہ دوسروں کی بندگی بجا لا کر اس کا حق مارتا ہے ۔ پھر اس بندگی غیر کے سلسلے میں آدمی جو عمل بھی کرتا ہے اس میں وہ اپنے ذہن و جسم سے لے کر زمین و آسمان تک کی بہت سی چیزوں کو استعمال کرتا ہے ، حالانکہ یہ ساری چیزیں اللہ وحدہ لا شریک کی پیدا کردہ ہیں اور ان میں سے کسی چیز کو بھی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی میں استعمال کرنے کا اسے حق نہیں ہے ۔ پھر آدمی پر خود اس کے اپنے نفس کا یہ حق ہے کہ وہ اسے ذلت اور عذاب میں مبتلا نہ کرے ۔ مگر وہ خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی بندگی کر کے اپنے آپ کو ذلیل بھی کرتا ہے اور مستحق عذاب بھی بناتا ہے ۔ اس طرح مشرک کی پوری زندگی ایک ہر جہتی اور ہمہ وقتی ظلم بن جاتی ہے جس کا کوئی سانس بھی ظلم سے خالی نہیں رہتا ۔
حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت ووصیت حضرت لقمان نے جو اپنے صاحبزادے کو نصیحت و وصیت کی تھی اس کا بیان ہو رہا ہے ۔ یہ لقمان بن عنقاء بن سدون تھے ان کے بیٹے کا نام سہیلی کے بیان کی رو سے ثاران ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر اچھائی سے کیا اور فرمایا کہ انکوحکمت عنایت فرمائی گئی تھی ۔ انہوں نے جو بہترین وعظ اپنے لڑکے کو سنایا تھا اور انہیں مفید ضروری اور عمدہ نصیحتیں کی تھیں ان کا ذکر ہو رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اولاد سے پیاری چیز انسان کی اور کوئی نہیں ہوتی اور انسان اپنی بہترین اور انمول چیز اپنی اولاد کو دینا چاہتا ہے ۔ تو سب سے پہلے یہ نصیحت کی کہ صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا ۔ یاد رکھو اس سے بڑی بےحیائی اور زیادہ برا کام کوئی نہیں ۔ حضرت عبداللہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے کہ جب آیت ( اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوْٓا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُّهْتَدُوْنَ 82؀ۧ ) 6- الانعام:82 ) اتری تو آصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی مشکل آپڑی اور انہوں نے حضور سے عرض کیا ہم میں سے وہ کون ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو؟ اور آیت میں ہے کہ ایمان کو جنہوں نے ظلم سے نہیں ملایا وہی با امن اور راہ راست والے ہیں ۔ تو آپ نے فرمایا کہ ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ ظلم سے مراد وہ ظلم ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا بڑا بھاری ظلم ہے ۔ اس پہلی وصیت کے بعد حضرت لقمان دوسری وصیت کرتے ہیں اور وہ بھی دوزخ اور تاکید کے لحاظ سے واقع ایسی ہی ہے کہ اس پہلی وصیت سے ملائی جائے ۔ یعنی ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرنا جیسے فرمان جناب باری ہے آیت ( وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا 23؀ ) 17- الإسراء:23 ) یعنی تیرا رب یہ فیصلہ فرماچکاہے کہ اس کے سواکسی اور کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک واحسان کرتے رہو ۔ عموما قرآن کریم میں ان دونوں چیزوں کا بیان ایک ساتھ ہے ۔ یہاں بھی اسی طرح ہے وھن کے معنی مشقت تکلیف ضعف وغیرہ کے ہیں ۔ ایک تکلیف تو حمل کی ہوتی ہے جسے ماں برداشت کرتی ہے ۔ حالت حمل کے دکھ درد کی حالت سب کو معلوم ہے پھر دو سال تک اسے دودھ پلاتی رہتی ہے اور اس کی پرورش میں لگی رہتی ہے ۔ چنانچہ اور آیت میں ہے ( وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَةَ ٢٣٣؁ ) 2- البقرة:233 ) یعنی جو لوگ اپنی اولاد کو پورا پورا دودھ پلانا چاہے ان کے لئے آخری انتہائی سبب یہ ہے کہ دوسال کامل تک ان بچوں کو ان کی مائیں اپنا دودھ پلاتی رہیں ۔ چونکہ ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے ( وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰثُوْنَ شَهْرًا 15؀ ) 46- الأحقاف:15 ) یعنی مدت حمل اور دودھ چھٹائی کل تیس ماہ ہے ۔ اس لئے حضرت ابن عباس اور دوسرے بڑے اماموں نے استدلال کیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے ۔ ماں کی اس تکلیف کو اولاد کے سامنے اس لئے ظاہر کیا جاتا ہے کہ اولاد اپنی ماں کی ان مہربانیوں کو یاد کرکے شکر گذاری اطاعت اور احسان کرے جیسے اور آیت میں فرمان عالیشان ہے آیت ( وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا 24؀ۭ ) 17- الإسراء:24 ) ہم سے دعا کرو اور کہو کہ میرے سچے پروردگار میرے ماں باپ پر اس طرح رحم وکرم فرما جس طرح میرے بچپن میں وہ مجھ پر رحم کیا کرتے تھے ۔ یہاں فرمایا تاکہ تو میرا اور اپنے ماں باپ کا احسان مند ہو ۔ سن لے آخر لوٹنا تو میری طرف ہے اگر میری اس بات کو مان لیا تو پھر بہترین جزا دونگا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بناکر بھیجا آپ نے وہاں پہنچ کر سب سے پہلے کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا ہوں ۔ یہ پیغام لے کر تم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو میری باتیں مانتے رہو میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہ کرونگا ۔ سب کو لوٹ کر اللہ کی طرف جانا ہے ۔ پھر یا تو جنت مکان بنے گی یا جہنم ٹھکانا ہوگا ۔ پھر وہاں سے نہ اخراج ہوگا نہ موت آئے گی ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اسلام کے سوا اور دین قبول کرنے کو کہیں ۔ گو وہ تمام تر طاقت خرچ کر ڈالیں خبردار تم ان کی مان کر میرے ساتھ ہرگز شریک نہ کرنا ۔ لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ تم ان کیساتھ سلوک واحسان کرنا چھوڑ دو نہیں دنیوی حقوق جو تمہارے ذمہ انکے ہیں ادا کرتے رہو ۔ ایسی باتیں ان کی نہ مانو بلکہ ان کی تابعداری کرو جو میری طرف رجوع ہوچکے ہیں سن لو تم سب لوٹ کر ایک دن میرے سامنے آنے والے ہو اس دن میں تمہیں تمہارے تمام تر اعمال کی خبر دونگا ۔ طبرانی کی کتاب العشرہ میں ہے حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ میں اپنی ماں کی بہت خدمت کیا کرتا تھا اور ان کا پورا اطاعت گذار تھا ۔ جب مجھے اللہ نے اسلام کی طرف ہدایت کی تو میری والدہ مجھ پر بہت بگڑیں اور کہنے لگی بچے یہ نیا دین تو کہاں سے نکال لایا ۔ سنو میں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ اس دین سے دستبردار ہو جاؤ ورنہ میں نہ کھاؤنگی نہ پیوگی اور یونہی بھوکی مرجاؤنگی ۔ میں نے اسلام کو چھوڑا نہیں اور میری ماں نے کھانا پینا ترک کردیا اور ہر طرف سے مجھ پر آوارہ کشی ہونے لگی کہ یہ اپنی ماں کا قاتل ہے ۔ میں بہت ہی دل میں تنگ ہوا اپنی والدہ کی خدمت میں باربار عرض کیا خوشامدیں کیں سمجھایا کہ اللہ کے لئے اپنی ضد سے باز آجاؤ ۔ یہ تو ناممکن ہے کہ میں اس سچے دین کو چھوڑ دوں ۔ اسی ضد میں میری والدہ پر تین دن کا فاقہ گذرگیا اور اس کی حالت بہت ہی خراب ہوگئی تو میں اس کے پاس گیا اور میں نے کہا میری اچھی اماں جان سنو تم مجھے میری جان سے زیادہ عزیز ہو لیکن میرے دین سے زیادہ عزیز نہیں ۔ واللہ ایک نہیں تمہاری ایک سوجانیں بھی ہوں اور اسی بھوک پیاس میں ایک ایک کرکے سب نکل جائیں تو بھی میں اخری لمحہ تک اپنے سچے دین اسلام کو نہ چھوڑونگا پر نہ چھوڑونگا ۔ اب میری ماں مایوس ہوگئیں اور کھانا پینا شرع کردیا ۔