Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
وَوَصَّيۡنَا الۡاِنۡسٰنَ بِوَالِدَيۡهِ‌ۚ حَمَلَتۡهُ اُمُّهٗ وَهۡنًا عَلٰى وَهۡنٍ وَّفِصٰلُهٗ فِىۡ عَامَيۡنِ اَنِ اشۡكُرۡ لِىۡ وَلِـوَالِدَيۡكَؕ اِلَىَّ الۡمَصِيۡرُ‏ ﴿14﴾
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر ، ( تم سب کو ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے ۔
و وصينا الانسان بوالديه حملته امه وهنا على وهن و فصله في عامين ان اشكر لي و لوالديك الي المصير
And We have enjoined upon man [care] for his parents. His mother carried him, [increasing her] in weakness upon weakness, and his weaning is in two years. Be grateful to Me and to your parents; to Me is the [final] destination.
Hum ney insan ko uss kay maa baap kay mutalliq naseehat ki hai uss ki maa ney dukh per dukh utha ker ussay hamal mein rakha aur uss ki doodh chraee do baras mein hai kay tu meri aur apnay maa baap ki shukar guzari ker ( tum sab ko ) meri hi taraf lot ker aana hai.
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے بارے میں یہ تاکید کی ہے ۔ ( کیونکہ ) اس کی ماں نے اسے کمزوری پر کمزوری برداشت کر کے پیٹ میں رکھا ، اور دو سال میں اس کا دودھ چھوٹتا ہے ۔ کہ تم میرا شکر ادا کرو ، اور اپنے ماں باپ کا ( ٧ ) میرے پاس ہی ( تمہیں ) لوٹ کر آنا ہے ۔
اور ہم نے آدمی کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید فرمائی ( ف۱۸ ) اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری پر کمزوری جھیلتی ہوئی ( ف۱۹ ) اور اس کا دودھ چھوٹنا دو برس میں ہے یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا ( ف۲۰ ) آخر مجھی تک آنا ہے ،
اور22 حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے ۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے 23 ۔ ( اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے ۔
اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں ( نیکی کا ) تاکیدی حکم فرمایا ، جسے اس کی ماں تکلیف پر تکلیف کی حالت میں ( اپنے پیٹ میں ) برداشت کرتی رہی اور جس کا دودھ چھوٹنا بھی دو سال میں ہے ( اسے یہ حکم دیا ) کہ تو میرا ( بھی ) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی ۔ ( تجھے ) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :22 یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی پوری عبارت ایک جملۂ معترضہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے لقمان کے قول کی تشریح مزید کے لیے ارشاد فرمایا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :23 ان الفاظ سے امام شافعی ، امام احمد ، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بچے کی مدت رضاعت دو سال ہے ۔ اس مدت کے اندر اگر کسی بچے نے کسی عورت کا دودھ پیا ہو تب تو حرمت رضاعت ثابت ہو گی ، ورنہ بعد کی کسی رضاعت کا کوئی لحاظ نہ کیا جائے گا ۔ امام مالک سے بھی ایک روایت اسی قول کے حق میں ہے لیکن امام ابو حنیفہ نے مزید احتیاط کی خاطر ڈھائی سال کی مدت تجویز کی ہے ، اور اس کے ساتھ ہی امام صاحب یہ بھی فرماتے ہیں کہ اگر دو سال یا اس سے کم مدت میں بچے کا دودھ چھڑا دیا گیا ہو اور اپنی غذا کے لیے بچہ دودھ کا محتاج نہ رہا ہو تو اس کے بعد کسی عورت کا دودھ پی لینے سے کوئی حرمت ثابت نہ ہو گی ۔ البتہ اگر بچے کی اصل غذا دودھ ہی ہو تو دوسری غذا تھوڑی بہت کھانے کے باوجود اس زمانے کی رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ اس لیے کہ آیت کا منشا یہ نہیں ہے کہ بچے کو لازماً دو سال ہی دودھ پلایا جائے ۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ مائیں بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں اس شخص کے لئے جو رضاعت پوری کرانا چاہتا ہو ( آیت۲۳۳ ) ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور اہل علم نے اس پر ان سے اتفاق کیا ہے کہ حمل کی قلیل ترین مدت چھ ماہ ہے ، اس لیے کہ قرآن میں ایک دوسری جگہ فرمایا ہے وَحَمْلُہ وَفِصٰلُہ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا ۳۰ مہینوں میں ہوا ۔ ( الاحقاف ، آیت ۱۵ ) ۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے جو جائز اور ناجائز ولادت کی بہت سی بحثوں کا فیصلہ کر دیتا ہے ۔