Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
اِنَّ اللّٰهَ عِنۡدَهٗ عِلۡمُ السَّاعَةِ‌ ۚ وَيُنَزِّلُ الۡغَيۡثَ‌ ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى الۡاَرۡحَامِ‌ ؕ وَمَا تَدۡرِىۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَكۡسِبُ غَدًا‌ ؕ وَّمَا تَدۡرِىۡ نَـفۡسٌۢ بِاَىِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌ خَبِيۡرٌ ‏ ﴿34﴾
بیشک اللہ تعالٰی ہی کے پاس قیامت کا علم ہے وہی بارش نازل فرماتا ہے اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے جانتا ہے کوئی ( بھی ) نہیں جانتا کہ کل کیا ( کچھ ) کرے گا؟ نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ کس زمین میں مرے گا ( یاد رکھو ) اللہ تعالٰی ہی پورے علم والا اور صحیح خبروں والا ہے ۔
ان الله عنده علم الساعة و ينزل الغيث و يعلم ما في الارحام و ما تدري نفس ما ذا تكسب غدا و ما تدري نفس باي ارض تموت ان الله عليم خبير
Indeed, Allah [alone] has knowledge of the Hour and sends down the rain and knows what is in the wombs. And no soul perceives what it will earn tomorrow, and no soul perceives in what land it will die. Indeed, Allah is Knowing and Acquainted.
Be-shak Allah Taalaa hi kay pass qayamat ka ilm hai wohi barish nazil farmata hai aur maa kay pet mein jo hai ussay janta hai. Koi ( bhi ) nahi janta kay kal kiya ( kuch ) keray ga? Na kissi ko yeh maloom hai kay kiss zamin mein maray ga ( yaad rakho ) Allah Taalaa ho pooray ilm wala aur sahih khabron wala hai.
یقیناً ( قیامت کی ) گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ، وہی بارش برساتا ہے ، اور وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹ میں کیا ہے ، اور کسی متنفس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ کونسی زمین میں اسے موت آئے گی ۔ بیشک اللہ ہر چیز کا مکمل علم رکھنے والا ، ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے ۔
بیشک اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم ( ف٦۷ ) اور اتارتا ہے مینھ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے ، اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی ، بیشک اللہ جاننے والا بتانے والا ہے ( ف٦۸ )
اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ، وہی بارش برساتا ہے ، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پا رہا ہے ، کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے ، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے 63 ۔ ع4
بیشک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ، اور وہی بارش اتارتا ہے ، اور جو کچھ رحموں میں ہے وہ جانتا ہے ، اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا ( عمل ) کمائے گا ، اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا ، بیشک اﷲ خوب جاننے والا ہے ، خبر رکھنے والا ہے ( یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے ، اَز خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے )
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :63 یہ آیت دراصل اس سوال کا جواب ہے جو قیامت کا ذکر اور آخرت کا وعدہ سن کر کفار مکہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے کہ آخر وہ گھڑی کب آئے گی ۔ قرآن مجید میں کہیں ان کے اس سوال کو نقل کر کے اس کا جواب دیا گیا ہے ، اور کہیں نقل کیے بغیر جواب دے دیا گیا ہے ، کیونکہ مخاطبین کے ذہن میں وہ موجود تھا ۔ یہ آیت بھی انہی آیات میں سے ہے جن میں سوال کا ذکر کیے بغیر اس کا جواب دیا گیا ہے ۔ پہلا فقرہ: اس گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔ یہ اصل سوال کا جواب ہے ۔ اس کے بعد کے چاروں فقرے اس کے لیے دلیل کے طور پر ارشاد ہوئے ہیں ۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جن معاملات سے انسان کی قریب ترین دلچسپیاں وابستہ ہیں ، انسان ان کے متعلق بھی کوئی علم نہیں رکھتا ، پھر بھلا یہ جاننا اس کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ساری دنیا کے انجام کا کب آئے گا ۔ تمہاری خوشحالی و بد حالی کا بڑا انحصار بارش پر ہے ۔ مگر اس کا سر رشتہ بالکل اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جب ، جہاں ، جتنی چاہتا ہے برساتا ہے اور جب چاہتا ہے روک لیتا ہے ۔ ہم قطعاً نہیں جانتے کہ کہاں ، کس وقت کتنی بارش ہو گی اور کونسی زمین اس سے محروم رہ جائے گی ، یا کس زمین پر بارش الٹی نقصان دہ ہو جائے گی ۔ تمہاری اپنی بیویوں کے پیٹ میں تمہارے اپنے نطفے سے حمل قرار پاتا ہے جس سے تمہاری نسل کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے ۔ مگر تم نہیں جانتے کہ کیا چیز اس پیٹ میں پرورش پا رہی ہے اور کس شکل میں کن بھلائیوں یا برائیوں کو لیے ہوئے وہ برآمد ہو گی ۔ تم کو یہ تک پتہ نہیں ہے کہ کل تمہارے ساتھ کیا کچھ پیش آنا ہے ۔ ایک اچانک حادثہ تمہاری تقدیر بدل سکتا ہے ، مگر ایک منٹ پہلے بھی تم کو اس کی خبر نہیں ہوتی ، تم کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ تمہاری اس زندگی کا خاتمہ آخر کار کہاں کس طرح ہو گا ۔ یہ ساری معلومات اللہ نے اپنے ہی پاس رکھی ہیں اور ان میں سے کسی کا علم بھی تم کو نہیں دیا ۔ ان میں سے ایک ایک چیز ایسی ہے جسے تم چاہتے ہو کہ پہلے سے تمہیں اس کا علم ہو جائے تو کچھ اس کے لیے پیش بندی کر سکو لیکن تمہارے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ان معاملات میں اللہ ہی کی تدبیر اور اسی کی قضا پر بھروسہ کرو ۔ اسی طرح دنیا کے اختتام کی ساعت کے معاملے میں بھی اللہ کے فیصلے پر اعتماد کرنے کے سوا چارہ نہیں ہے ۔ اس کا علم بھی نہ کسی کو دیا گیا ہے نہ دیا جا سکتا ہے ۔ یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے ، کہ اس آیت میں امور غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بے خبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ حالانکہ غیب نام ہی اس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو ، اور فی الحقیقت اس غیب کی کوئی حد نہیں ہے ۔ ( اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جِلد سوم ، صفحات ۵۹۵ تا ۵۹۸ ) ۔
غیب کی پانچ باتیں یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی اور کو نہیں ۔ مگر اس کے بعد کہ اللہ اسے علم عطافرمائے ۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانے نہ کوئی مقرب فرشتہ ، اس کا وقت صرف اللہ ہی جانتا ہے اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور جسے اللہ معلوم کرائے ۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ نر ہوگا یا مادہ لڑکا ہوگا یا لڑکی نیک ہوگا یا بد ؟ اسی طرح کسی کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کل وہ کیا کرے گا ؟ نہ کسی کو یہ علم ہے کہ وہ کہاں مرے گا ؟ اور آیت میں ہے ( وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ 59؀ ) 6- الانعام:59 ) غیب کی کنجیاں اللہ ہی کے پاس ہیں جنہیں بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور حدیث میں ہے کہ غیب کی کنجیاں یہاں پانچ چیزیں ہیں جن کا بیان آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34؀ۧ ) 31- لقمان:34 ) میں ہے مسند احمد میں ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ باتیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ بخاری کی حدیث کے الفاظ تو یہ ہیں کہ یہ پانچ غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ مسند احمد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے تجھے ہر چیز کی کنجیاں دی گئی ہیں سوائے پانچ کے پھر یہی آیت آپ نے پڑھی ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور ہماری مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے اور پوچھنے لگے ایمان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ کو فرشتوں کو کتابوں کو رسولوں کو آخرت کو مرنے کے بعد جی اٹھنے کو مان لینا ۔ اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ فرمایا ایک اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا نمازیں پڑھنازکوٰۃ دینا رمضان کے روزے رکھنا ۔ اس نے دریافت کیا احسان کیا ہے؟ فرمایا تیرا اس طرح اللہ کی عبادت کرنا کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھتا تو وہ تجھے دیکھ رہاہے ۔ اس نے کہا حضور قیامت کب ہے فرمایا اس کا علم نہ مجھے ہے اور نہ تجھے ہے ہاں اس کی کچھ نشانیاں میں تمہیں بتادیتا ہوں ۔ جب لونڈی اپنے میاں کو جنے اور جب ننگے پیروں اور ننگے بدنوں والے لوگوں کے سردار بن جائیں ۔ علم قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ وہ شخص واپس چلا گیا آپ نے فرمایا جاؤ اسے لوٹا لاؤ لوگ دوڑ پڑے لیکن وہ کہیں بھی نظر نہ آیا ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ جبرائیل تھے لوگوں کو دین سکھانے آئے تھے ( بخاری ) ہم نے اس حدیث کا مطلب صحیح بخاری میں خوب بیان کیا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جبرائیل نے اپنی ہتھیلیاں حضور کے گھٹنوں پر رکھ کر یہ سوالات کیے تھے ۔ ایک صحیح سند کے ساتھ مسند احمد میں مروی ہے کہ بنو عامر قبیلے کا ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کہنے لگا میں آؤں؟ آپ نے اپنے خادم کو بھیجا کہ جا کر انہیں ادب سکھاؤ یہ اجازت مانگنا نہیں جانتے ۔ ان سے کہو پہلے سلام کرو پھر دریافت کرو کہ میں آسکتا ہوں ؟ انہوں نے سن لیا اور اسی طرح سلام کیا اور اجازت چاہی یہ گئے اور جاکر کہا آپ ہمارے لیے کیا لے کر آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا بھلائی ہی بھلائی ۔ سنو تم ایک اللہ کی عبادت کرو لات وعزیٰ کو چھوڑ دو دن رات میں پانچ نمازیں پڑھاکرو سال بھر میں ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرکے اپنے فقیروں پر تقسیم کرو ۔ انہوں نے دریافت کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا علم میں سے کچھ ایساباقی ہے جسے آپ نہ جانتے ہوں ۔ آپ نے فرمایا ہاں ایساعلم بھی ہے جسے بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ۔ مجاہد فرماتے ہیں گاؤں کے رہنے والے ایک شخص نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ میری عورت حمل سے ہے بتلائے کیا بچہ ہوگا ؟ ہمارے شہر میں قحط ہے فرمائیے بارش کب ہوگی؟ یہ تو میں نہیں جانتا کہ میں کب پیدا ہوا لیکن یہ آپ معلوم کرادیجئیے کہ کب مرونگا ؟ اس کے جواب میں یہ آیت اتری کہ مجھے ان چیزوں کا مطلق علم نہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں یہی غیب کی کنجیاں ہیں جن کے بارے میں فرمان باری ہے کہ غیب کی کنجیاں صرف اللہ ہی کے پاس ہے ۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں جو تم سے کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی بات کا علم جانتے تھے تو سمجھ لینا کہ وہ سب سے بڑا جھوٹاہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا ؟ قتادۃ فرماتے ہیں کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا علم اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا نہ نبی کو نہ فرشتہ کو اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کس سال کس مہینے کس دن یا کس رات میں وہ آئے گی ۔ اسی طرح بارش کا علم بھی اس کے سوا کسی کو نہیں کہ کب آئے؟ اور کوئی نہیں جانتاکہ حاملہ کے پیٹ میں بچہ نر ہوگا یا مادہ سرخ ہوگا یاسیاہ ؟ اور کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ نیکی کرے گا یا بدی کرے گا ؟ مرے گا یا جئے گا بہت ممکن ہے کل موت یا آفت آجائے ۔ نہ کسی کو یہ خبر ہے کہ کس زمین میں وہ دبایا جائے گا یاسمندر میں بہایا جائے گا یا جنگل میں مرے گا یا نرم یاسخت زمین میں جائے گا ۔ حدیث شریف میں ہے جب کسی کو موت دوسری زمین میں ہوتی ہے تو اس کا وہیں کا کوئی کام نکل آتا ہے اور وہیں موت آجاتی ہے اور روایت میں ہے کہ یہ فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ۔ اعشی ہمدان کے شعر ہیں جن میں اس مضمون کو نہایت خوبصورتی سے ادا کیا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ قیامت کے دن زمین اللہ تعالیٰ سے کہے گی کہ یہ ہیں تیری امانتیں جو تونے مجھے سونپ رکھی تھیں ۔ طبرانی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔