Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّكُمۡ وَاخۡشَوۡا يَوۡمًا لَّا يَجۡزِىۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِهٖ وَلَا مَوۡلُوۡدٌ هُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِهٖ شَيۡـــًٔا‌ ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰهِ حَقٌّ‌ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الۡحَيٰوةُ الدُّنۡيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُمۡ بِاللّٰهِ الۡغَرُوۡرُ‏ ﴿33﴾
لوگو !اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا ( یاد رکھو ) اللہ کا وعدہ سچا ہے ( دیکھو ) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ دھوکے باز ( شیطان ) تمہیں دھوکے میں ڈال دے ۔
يايها الناس اتقوا ربكم و اخشوا يوما لا يجزي والد عن ولده و لا مولود هو جاز عن والده شيا ان وعد الله حق فلا تغرنكم الحيوة الدنيا و لا يغرنكم بالله الغرور
O mankind, fear your Lord and fear a Day when no father will avail his son, nor will a son avail his father at all. Indeed, the promise of Allah is truth, so let not the worldly life delude you and be not deceived about Allah by the Deceiver.
Logo! Apnay rab say daro aur uss din ka khof kero jiss din baapo apnay betay ko koi nafa na phoncha sakay ga aur na beta apnay baap ka zara sa bhi nafa kerney wala hoga ( yaad rakho ) Allah ka wada sacha hai ( dekho ) tumehn duniya ki zindagi dhokay mein na dalay aur na dhokay baaz ( shetan ) tumehn dhokay mein daal dey.
اے لوگو ! اپنے پروردگار ( کی ناراضی ) سے بچو ، اور ڈرو اس دن سے جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام نہیں آئے گا ، اور نہ کسی بیٹے کی یہ مجال ہوگی کہ وہ اپنے باپ کے ذرا بھی کام آجائے ۔ یقین جانو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اس لیے ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ یہ دنیوی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے ، اور ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ وہ ( شیطان ) تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکے میں ڈال دے جو سب سے بڑا دھوکا باز ہے ۔
اے لوگو! ( ف٦۲ ) اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس میں کوئی باپ بچہ کے کام نہ آئے گا ، اور نہ کوئی کامی ( کاروباری ) بچہ اپنے باپ کو کچھ نفع دے ( ف٦۳ ) بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے ( ف٦٤ ) تو ہرگز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی ( ف٦۵ ) اور ہرگز تمہیں اللہ کے علم پر دھوکہ نہ دے وہ بڑا فریبی ( ف٦٦ )
لوگو! بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہو 59 ہوگا ۔ فی الواقع اللہ کا وعدہ 60 سچا ہے ۔ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے 61 اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے 62 ۔
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو ، اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہیں دے سکے گا اور نہ کوئی ایسا فرزند ہوگا جو اپنے والد کی طرف سے کچھ بھی بدلہ دینے والا ہو ، بیشک اﷲ کا وعدہ سچا ہے سو دنیا کی زندگی تمہیں ہرگز دھوکہ میں نہ ڈال دے ، اور نہ ہی فریب دینے والا ( شیطان ) تمہیں اﷲ کے بارے میں دھوکہ میں ڈال دے
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :59 یعنی دوست ، لیڈر ، پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں ، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے ۔ مگر وہاں حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے ، اور باپ کی شامت آرہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی کہ اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے ۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا ۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے ، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے ۔ اس مقام پر آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :60 اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :61 دنیا کی زندگی سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے ، کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے ، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے ، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کرلو ، کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے ۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور معیار زندگی کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے ۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے ، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے ۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدۂ کلیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے ، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے ، وہ خدا کا محبوب ہے ، اور جس کی دنیا خراب ہے ، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو ، اس کی عاقبت بھی خراب ہے ۔ یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں ، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دنیوی زندگی کے دھوکے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :62 الغرور ( دھوکے باز ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے ، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے ، انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے ، اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے ۔ کسی شخص خاص یا شئے خاص کا تعین کیے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لیے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں ۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لیے الغرور ہے ۔ اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں ۔ کسی کو اس کا دھوکے باز یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں ۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دنیا بندوں کے حوالے ہے ۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو ، بخشش تمہاری یقینی ہے ۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے ، تم گناہ کرتے چلے جاؤ ، وہ بخشتا چلا جائے گا ۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو ، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہی تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا ۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے ، اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کار تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے روبرو کیا ہوگا اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرا رہا ہے اور اپنے تقوے کا حکم فرما رہا ہے ۔ ارشاد ہے اس دن باپ اپنے بچے کو یا بچہ اپنے باپ کو کچھ کام نہ آئے گا ایک دوسرے کا فدیہ نہ ہوسکے گا ۔ تم دنیا پر اعتماد کرنے والو آخرت کو فراموش نہ کر جاؤ شیطان کے فریب میں نہ آجاؤ وہ تو صرف پردہ کی آڑ میں شکار کھیلنا جانتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عزیر علیہ السلام نے جب اپنی قوم کی تکلیف ملاحظہ کی اور غم ورنج بہت بڑھ گیا نیند اچاٹ ہوگئی تو اپنے رب کی طرف جھکے ۔ فرماتے ہیں میں نے نہایت تضرع وزاری کی ، خوب رویا گڑگڑایا نمازیں پڑھیں روزے رکھے دعائیں مانگیں ۔ ایک مرتبہ رو رو کر تضرع کر رہا تھا کہ میرے سامنے ایک فرشتہ آگیا میں نے اس سے پوچھا کیا نیک لوگ بروں کی شفاعت کریں گے؟ یاباپ بیٹوں کے کام آئیں گے ؟ اس نے فرمایا کہ قیامت کا دن جھگڑوں کے فیصلوں کا دن ہے اس دن اللہ خود سامنے ہوگا کوئی بغیر اس کی اجازت کے لب نہ ہلاسکے گا کسی کو دوسرے کے بدلے نہ پکڑا جائے گا نہ باپ بیٹے کے بدلے نہ بیٹا باپ کے بدلے نہ بھائی بھائی کے بدلے نہ غلام آقا کے بدلے نہ کوئی کسی کا غم ورنج کرے گا نہ کسی کی طرف سے کسی کو خیال ہوگا نہ کسی پر رحم کرے گا نہ کسی کو کسی سے شفقت ومحبت ہوگی ۔ نہ ایک دوسرے کی طرف پکڑا جائے گا ۔ ہر شخص نفسانفسی میں ہوگا ہر ایک اپنی فکر میں ہوگا ہر ایک کو اپنا رونا پڑا ہوگا ہر ایک اپنابوجھ اٹھائے ہوئے ہوگا کسی اور کا نہیں ۔