Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
وَاِذَا غَشِيَهُمۡ مَّوۡجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخۡلِصِيۡنَ لَهُ الدِّيۡنَ ۙ فَلَمَّا نَجّٰٮهُمۡ اِلَى الۡبَـرِّ فَمِنۡهُمۡ مُّقۡتَصِدٌ ‌ؕ وَمَا يَجۡحَدُ بِاٰيٰتِنَاۤ اِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُوۡرٍ‏ ﴿32﴾
اور جب ان پر موجیں سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہیں تو وہ ( نہایت ) خلوص کے ساتھ اعتقاد کر کے اللہ تعالٰی ہی کو پکارتے ہیں پھر جب وہ ( باری تعالیٰ ) انہیں نجات دے کر خشکی کی طرف پہنچاتا ہے تو کچھ ان میں سے اعتدال پر رہتے ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو بدعہد اور ناشکرے ہوں ۔
و اذا غشيهم موج كالظلل دعوا الله مخلصين له الدين فلما نجىهم الى البر فمنهم مقتصد و ما يجحد بايتنا الا كل ختار كفور
And when waves come over them like canopies, they supplicate Allah , sincere to Him in religion. But when He delivers them to the land, there are [some] of them who are moderate [in faith]. And none rejects Our signs except everyone treacherous and ungrateful.
Aur jab unn per mojen saeebanon ki tarah chah jati hain to woh ( nihayat ) khuloos kay sath aeytiqaad kerkay Allah Taalaa hi ko pukartay hain. Phir jab woh ( bari taalaa ) unhen nijat dey ker khushki ki taraf phonchata hai to kuch inn mein say aeytidaal per rehtay hain aur humari aayaton ka inkar sirf wohi kertay hain jo bad-ehad aur na shukray hon.
اور جب موجیں سائبانوں کی طرح ان پر چڑھ آتی ہیں تو وہ اللہ کو اس طرح پکارتے ہیں کہ اس وقت ان کا اعتقاد خالص اسی پر ہوتا ہے ۔ پھر جب وہ ان کو بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہیں جو راہ راست پر رہتے ہیں ( باقی پھر شرک کرنے لگتے ہیں ) اور ہماری آیتوں کا انکار وہی شخص کرتا ہے جو پکار بدعہد ، پرلے درجے کا ناشکر ہو ۔
اور جب ان پر ( ف۵۹ ) آپڑتی ہے کوئی موج پہاڑوں کی طرح تو اللہ کو پکارتے ہیں نرے اسی پر عقیدہ رکھتے ہوئے ( ف٦۰ ) پھر جب انھیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو ان میں کوئی اعتدال پر رہتا ہے ( ف٦۱ ) اور ہماری آیتوں کا انکار نہ کرے گا مگر ہر بڑا بےوفا ناشکرا ،
اور جب ( سمندر میں ) ان لوگوں پر ایک موج سائبانوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کر کے ، پھر جب وہ بچا کر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اقتصاد برتتا ہے 57 ، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدار اور ناشکرا ہے 58 ۔
اور جب سمندر کی موج ( پہاڑوں ، بادلوں یا ) سائبانوں کی طرح ان پر چھا جاتی ہے تو وہ ( کفّار و مشرکین ) اﷲ کو اسی کے لئے اطاعت کو خالص رکھتے ہوئے پکارنے لگتے ہیں ، پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی کی طرف لے جاتا ہے تو ان میں سے چند ہی اعتدال کی راہ ( یعنی راہِ ہدایت ) پر چلنے والے ہوتے ہیں ، ہماری آیتوں کا کوئی انکار نہیں کرتا سوائے ہر بڑے عہد شکن اور بڑے ناشکرگزار کے
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :57 اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں ۔ اقتصاد کو اگر راست روی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے کم ہی ایسے نکلتے ہیں جو وہ وقت گزر جانے کے بعد بھی اس توحید پر ثابت قدم رہتے ہیں جس کا اقرار انہوں نے طوفان میں گھر کر کیا تھا اور یہ سبق ہمیشہ کے لیے ان کو راست رو بنا دیتا ہے ۔ اور اگر اقتصاد بمعنی توسُّط و اعتدال لیا جائے تو اس کا ایک مطلب یہ ہو گا کہ ان میں سے بعض لوگ اپنے شر و دہریت کے عقیدے میں اس شدت پر قائم نہیں رہتے جس پر اس تجربے سے پہلے تھے ، اور دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ وقت گزر جانے کے بعد ان میں سے بعض لوگوں کے اندر اخلاص کی وہ کیفیت ٹھنڈی پڑ جاتی ہے جو اس وقت پیدا ہوئی تھی ۔ اغلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ ذو معنی فقرہ بیک وقت ان تینوں کیفیتوں کی طرف اشارہ کرنے کے لیے استعمال فرمایا ہو ۔ مدعا غالباً یہ بتانا ہے کہ بحری طوفان کے وقت تو سب کا دماغ درستی پر آ جاتا ہے اور شرک و دہریت کو چھوڑ کر سب کے سب خدائے واحد کو مدد کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں ۔ لیکن خیریت سے ساحل پر پہنچ جانے کے بعد ایک قلیل تعداد ہی ایسی نکلتی ہے جس نے اس تجربے سے کوئی پائدار سبق حاصل کیا ہو ۔ پھر یہ قلیل تعداد بھی تین قسم کے گروہوں میں بٹ جاتی ہے ۔ ایک وہ جو ہمیشہ کے لیے سیدھا ہو گیا ۔ دوسرا وہ جس کا کفر کچھ اعتدال پر آگیا ۔ تیسری وہ جس کے اندر اس ہنگامی اخلا ص میں سے کچھ نہ کچھ باقی رہ گیا ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :58 یہ دو صفات ان دو صفتوں کے مقابلے میں ہیں جن کا ذکر اس سے پہلی کی آیت میں کیا گیا تھا ۔ غدار وہ شخص ہے جو سخت بے وفا ہو اور اپنے عہد و پیماں کا کوئی پاس نہ رکھے ۔ اور ناشکرا وہ ہے جس پر خواہ کتنی ہی نعمتوں کی بارش کر دی جائے وہ احسان مان کر نہ دے اور اپنے محسن کے مقابلے میں سرکشی سے پیش آئے یہ صفات جن لوگوں میں پائی جاتی ہیں وہ خطرے کا وقت ٹل جانے کے بعد بے تکلف اپنے کفر ، اپنی دہریت اور اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ انہوں نے طوفان کی حالت میں خدا کے ہونے اور ایک ہی خدا کے ہونے کی کچھ نشانیاں خارج میں بھی اور خود اپنے نفس میں بھی پائی تھیں اور ان کا خدا کو پکارنا اسی وجدان حقیقت کا نتیجہ تھا ۔ ان میں سے جو دہریے ہیں وہ اپنے اس فعل کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ وہ تو ایک کمزوری تھی جو بحالت اضطراب ہم سے سرزد ہو گئی ، ورنہ درحقیقت خدا ودا کوئی نہ تھا جس نے ہمیں طوفان سے بچایا ہو ، ہم تو فلاں فلاں اسباب و ذرائع سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ رہے مشرکین ، تو وہ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگوں ، یا دیوی دیوتاؤں کا سایہ ہمارے سر پر تھا جس کے طفیل ہم بچ گئے ، چنانچہ ساحل پر پہنچتے ہی وہ اپنے معبودان باطل کے شکریے ادا کرنے شروع کر دیتے ہیں اور انہی کے آستانوں پر چڑھاوے چڑھانے لگتے ہیں ۔ یہ خیال تک انہیں نہیں آتا کہ جب ساری امیدوں کے سہارے ٹوٹ گئے تھے اس وقت اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی نہ تھا جس کا دامن انہوں نے تھاما ہو ۔