Surah

Information

Surah # 31 | Verses: 34 | Ruku: 4 | Sajdah: 0 | Chronological # 57 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 27-29, from Madina
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ الۡفُلۡكَ تَجۡرِىۡ فِى الۡبَحۡرِ بِنِعۡمَتِ اللّٰهِ لِيُرِيَكُمۡ مِّنۡ اٰيٰتِهٖؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيٰتٍ لِّـكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوۡرٍ‏ ﴿31﴾
کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ دریا میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں اس لئے کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے ، یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں ۔
الم تر ان الفلك تجري في البحر بنعمت الله ليريكم من ايته ان في ذلك لايت لكل صبار شكور
Do you not see that ships sail through the sea by the favor of Allah that He may show you of His signs? Indeed in that are signs for everyone patient and grateful.
Kiya tum iss per ghor nahi kertay kay dariya mein kashtiyan Allah kay fazal say chal rahi hain iss liye kay woh tumhen apni nishaniyan dikhaway yaqeenan iss mein her aik sabar shukar kerney walay kay liye boht si nishaniyan hain.
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اللہ کی مہربانی سے چلتی ہیں ، تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے؟ یقینا اس میں ہر اس شخص کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں جو صبر کا پکا ، اعلی درجے کا شکر گذار ہو ۔
کیا تو نے نہ دیکھا کہ کشتی دریا میں چلتی ہے ، اللہ کے فضل سے ( ف۵٦ ) تاکہ تمہیں وہ اپنی ( ف۵۷ ) کچھ نشانیاں دکھائے بیشک اس میں نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر کرنے والے شکرگزار کو ( ف۵۸ )
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے 55 ۔ درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو 56 ۔
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کشتیاں سمندر میں اﷲ کی نعمت سے چلتی ہیں تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھا دے ۔ بیشک اس میں ہر بڑے صابر و شاکر کے لئے نشانیاں ہیں
سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :55 یعنی ایسی نشانیاں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اختیارات بالکل اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔ انسان خواہ کیسے ہی مضبوط اور بحری سفر کے لیے موزوں جہاز بنا لے اور جہاز رانی کے فن اور اس سے تعلق رکھنے والی معلومات اور تجربات میں کتنا ہی کمال حاصل کر لے ، لیکن سمندر میں جن ہولناک طاقتوں سے اس کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ تنہا اپنی تدابیر کے بل بوتے پر بخیریت سفر نہیں کر سکتا جب تک اللہ کا فضل شامل حال نہ ہو ۔ اس کی نگاہ کرم پھرتے ہی آدمی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے ذرائع و وسائل اور کمالات فن کتنے پانی میں ہیں ۔ اسی طرح آدمی امن و اطمینان کی حالت میں چاہے کیسا ہی سخت دہریہ یا کٹا مشرک ہو ، لیکن سمندر کے طوفان میں جب اس کی کشتی ڈولنے لگتی ہے اس وقت دہریے کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا ہے ، اور مشرک بھی جان لیتا ہے کہ خدا بس ایک ہی ہے ۔ سورة لُقْمٰن حاشیہ نمبر :56 یعنی جن لوگوں میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں وہ جب ان نشانیوں سے حقیقت کو پہچانتے ہیں تو ہمیشہ کے لیے توحید کا سبق اصل کر کے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاتے ہیں ۔ پہلی صفت یہ کہ وہ صَبّار ( بڑے صبر کرنے والے ) ہوں ۔ ان کے مزاج میں تلوُّن نہ ہو بلکہ ثابت قدمی ہو ۔ گوارا اور ناگوار ، سخت اور نرم ، اچھے اور برے ، تمام حالات میں ایک عقیدۂ صالحہ پر قائم رہیں ۔ یہ کمزوری ان میں نہ ہو کہ برا وقت آیا تو خدا کے سامنے گڑ گڑانے لگے اور اچھا وقت آتے ہی سب کچھ بھول گئے ، یا اس کے برعکس اچھے حالات میں خدا پرستی کرتے رہے اور مصائب کی ایک چوٹ پڑتے ہی خدا کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔ دوسری صفت یہ کہ وہ شکور ( بڑے شکر کرنے والے ) ہوں ۔ نمک حرام اور احسان فراموش نہ ہوں بلکہ نعمت کی قدر پہچانتے ہوں اور نعمت دینے والے کے لیے ایک مستقل جذبۂ شکر و سپاس اپنے دل میں جاگزیں رکھیں ۔
طوفان میں کون یاد آتا ہے؟ اللہ کے حکم سے سمندروں میں جہاز رانی ہو رہی ہے اگر وہ پانی میں کشتی کو تھامنے کی اور کشتی میں پانی کو کاٹنے کی قوت نہ رکھتا تو پانی میں کشتیاں کیسے چلتیں؟ وہ تمہیں اپنی قدرت کی نشانیاں دکھارہاہے مصیبت میں صبر اور راحت میں شکر کرنے والے ان سے بہت کچھ عبرتیں حاصل کرسکتے ہیں ۔ جب ان کفار کو سمندروں میں موجیں گھیر لیتی ہیں اور ان کی کشتی ڈگمگانے لگتی ہیں اور موجیں پہاڑوں کی طرح ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر کشتیوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے لگتی ہیں تو اپنا شرک کفر سب بھول جاتے ہیں اور گریہ وزاری سے ایک اللہ کو پکارنے لگتے ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ 67؀ ) 17- الإسراء:67 ) ، دریا میں جب تمہیں ضرر پہنچتا ہے تو بجز اللہ کے سب کو کھو بیٹھتے ہو ۔ اور آیت میں ہے ( فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڬ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَ 65؀ۙ ) 29- العنكبوت:65 ) ان کی اس وقت کی لجاجت پر اگر ہمیں رحم آگیا ہو اور جب انہیں سمندر سے پار کردیا تو تھوڑے سے کافر ہوجاتے ہیں ۔ مجاہد نے یہی تفیسر کی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( اذاھم یشرکون ) لفظی معنی یہ ہیں کہ ان میں سے بعض متوسط درجے کے ہوتے ہیں ابن زید یہی کہتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ 32؀ۭ ) 35- فاطر:32 ) ان میں سے بعض ظالم ہیں بعض میانہ رو ہیں ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں ہی مراد ہوں تو مطلب یہ ہوگا کہ جس نے ایسی حالت دیکھی ہو جو اس مصیبت سے نکلا ہو اسے تو چاہے کہ نیکیوں میں پوری طرح کوشش کرے لیکن تاہم یہ بیچ میں ہی رہ جاتے ہیں اور کچھ تو پھر کفر پر چلے جاتے ہیں ۔ ختار کہتے ہیں غدار کو جو عہد شکن ہو ۔ ختر کے معنی پوری عہد شکنی کے ہیں ۔ کفور کہتے ہیں منکر کو جو نعمتوں سے نٹ جائے منکر ہوجائے شکر تو ایک طرف بھول جائے اور ذکر بھی نہ کرے ۔