Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
ۚ تَنۡزِيۡلُ الۡكِتٰبِ لَا رَيۡبَ فِيۡهِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِيۡنَؕ‏ ﴿2﴾
بلا شبہ اس کتاب کا اتارنا تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے ۔
تنزيل الكتب لا ريب فيه من رب العلمين
[This is] the revelation of the Book about which there is no doubt from the Lord of the worlds.
Bila shuba iss kitab ka utarna tamam jahano kay perwerdigar ki taraf say hai.
رب العالمین کی طرف سے یہ ایک ایسی کتاب اتاری جارہی ہے جس میں کوئی شک کی بات نہیں ہے ۔
کتاب کا اتارنا ( ف۲ ) بیشک پروردگار عالم کی طرف سے ہے ،
اس کتاب کی تنزیل بلا شبہ رب العالمین کی طرف سے ہے ۔ 1
اس کتاب کا اتارا جانا ، اس میں کچھ شک نہیں کہ تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے ہے
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :1 قرآن مجید کی متعدد سورتیں اس طرح کے کسی نہ کسی تعارفی فقرہ سے شروع ہوتی ہیں جس سے مقصود آغاز کلام ہی میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ یہ کلام کہاں سے آ رہا ہے ۔ یہ بظاہر اسی طرز کا ایک تمہیدی فقرہ ہے جیسے ریڈیو پر اعلان کرنے والا پروگرام کے آغاز میں کہتا ہے کہ ہم فلاں اسٹیشن سے بول رہے ہیں ۔ لیکن ریڈیو کے اس معمولی سے اعلان کے برعکس قرآن مجید کی کسی سورت کا آغاز جب اس غیر معمولی اعلان سے ہوتا ہے کہ یہ پیغام فرمانروائے کائنات کی طرف سے آ رہا ہے تو یہ محض مصدر کلام کا بیان ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ اس میں ایک بہت بڑا دعویٰ ، ایک عظیم چیلنج اور ایک سخت انذار بھی شامل ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ وہ چھوٹتے ہی اتنی بڑی خبر دیتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہے ، خدا وند عالم کا کلام ہے ۔ یہ اعلان فوراً ہی یہ بھاری سوال آدمی کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ اس دعوے کو تسلیم کروں یا نہ کروں ۔ تسلیم کرتا ہوں تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس کے آگے سر اطاعت جھکا دینا ہو گا ، پھر میرے لیے اس کے مقابلہ میں کوئی آزادی باقی نہیں رہ سکتی ۔ تسلیم نہیں کرتا تو لا محالہ یہ خطرۂ عظیم مول لیتا ہوں کہ اگر واقعی یہ خداوند عالم کا کلام ہے تو اسے رد کرنے کا نتیجہ مجھ کو ابدی شقاوت و بد بختی کی صورت میں دیکھنا پڑے گا ۔ اس بنا پر یہ تمہیدی فقرہ مجرد اپنی اس غیر معمولی نوعیت ہی کی بنا پر آدمی کو مجبور کر دیتا ہے کہ چوکنا ہو کر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس کلام کو سنے اور یہ فیصلہ کرے کہ اس کو کلام الہٰی ہونے کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہے یا نہیں ۔ یہاں صرف اتنی بات کہنے پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے کہ یہ کتاب رب العالمین کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، بلکہ مزید براں پورے زور کے ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ ، بیشک یہ خدا کی کتاب ہے ، اس کے مَنَزَّل مِنَ اللہ ہونے میں قطعاً کسی شک کی گنجائش نہیں ہے اس تاکیدی فقرے کو اگر نزول قرآن کے واقعاتی پس منظر اور خود قرآن کے اپنے سیاق میں دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر دعوے کے ساتھ دلیل بھی مضمر ہے ، اور یہ دلیل مکہ معظمہ کے ان باشندوں سے پوشیدہ نہ تھی جن کے سامنے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا ۔ اس کتاب کے پیش کرنے والے کی پوری زندگی ان کے سامنے تھی ، کتاب پیش کرنے سے پہلے کی بھی اور اس کے بعد کی بھی ۔ وہ جانتے تھے کہ جو شخص اس دعوے کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا ہے وہ ہماری قوم کا سب سے زیادہ راستباز ، سنجیدہ اور پاک سیرت ہے ۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دعوائے نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس سے وہ باتیں کبھی نہ سنی تھیں جو نبوت کے بعد یکایک اس نے بیان کرنی شروع کر دیں ۔ وہ اس کتاب کی زبان اور طرز بیان میں اور خود محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اور طرز بیان میں نمایاں فرق پاتے تھے اور اس بات کو بداہۃً جانتے تھے کہ ایک ہی شخص کے دو اسٹائل اتنے صریح فرق کے ساتھ نہیں ہو سکتے ۔ وہ اس کتاب کے انتہائی معجزانہ ادب کو بھی دیکھ رہے اور اہل زبان کی حیثیت سے خود جانتے تھے کہ ان کے سارے ادیب اور شاعر اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہیں ۔ وہ اس سے بھی ناواقف نہ تھے کہ ان کی قوم کے شاعروں ، کاہنوں اور خطیبوں کے کلام میں اور اس کلام میں کتنا عظیم فرق ہے اور جو پاکیزہ مضامین اس کلام میں بیان کئے جا رہے ہیں وہ کتنے بلند پایہ ہیں ۔ انہیں اس کتاب میں ، اور اس کے پیش کرنے والے کی دعوت میں کہیں دور دور بھی اس خود غرضی کا ادنیٰ شائبہ تک نظر نہیں آتا جس سے کسی جھوٹے مدعی کا کام اور کلام کبھی خالی نہیں ہو سکتا ۔ وہ خوردبین لگا کر بھی اس امر کی نشان دہی نہیں کر سکتے تھے کہ نبوت کا یہ دعویٰ کر کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے لئے یا اپنے خاندان کے لئے یا اپنی قوم کے لئے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کام میں ان کی اپنی کیا غرض پوشیدہ ہے ۔ پھر وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ اس دعوت کی طرف ان کی قوم کے کیسے لوگ کھنچ رہے ہیں اور اس سے وابستہ ہو کر ان کی زندگیوں میں کتنا بڑا انقلاب واقع ہو رہا ہے ۔ یہ ساری باتیں مل جل کر خود دلیل دعویٰ بنی ہوئی تھیں اسی لئے اس پس منظر میں یہ کہنا بالکل کافی تھا کہ اس کتاب کا رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔ اس پر کسی دلیل کے اضافے کی کوئی حاجت نہ تھی ۔
سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات ہیں ان کی پوری بحث ہم سورۃ بقرہ کے شروع میں کرچکے ہیں ۔ یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ کتاب قرآن حکیم بیشک وشبہ اللہ رب العلمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ مشرکین کا یہ قول غلط ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اسے گھڑلیا ہے ۔ نہیں یہ تو یقینا اللہ کی طرف سے ہے اس لئے اترا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس قوم کو ڈراوے کے ساتھ آگاہ کردیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی اور پیغمبر نہیں آیا ۔ تاکہ وہ حق کی اتباع کرکے نجات حاصل کرلیں ۔