Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰٮهُ‌ۚ بَلۡ هُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّكَ لِتُنۡذِرَ قَوۡمًا مَّاۤ اَتٰٮهُمۡ مِّنۡ نَّذِيۡرٍ مِّنۡ قَبۡلِكَ لَعَلَّهُمۡ يَهۡتَدُوۡنَ‏ ﴿3﴾
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے سے گھڑ لیا ہے ( نہیں نہیں ) بلکہ یہ تیرے رب تعالٰی کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جنکے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں ۔
ام يقولون افترىه بل هو الحق من ربك لتنذر قوما ما اتىهم من نذير من قبلك لعلهم يهتدون
Or do they say, "He invented it"? Rather, it is the truth from your Lord, [O Muhammad], that you may warn a people to whom no warner has come before you [so] perhaps they will be guided.
Kiya yeh kehtay hain kay iss ney issay gharh liya hai. ( nahi nahi ) bulkay yeh teray rab Taalaa ki taraf say haq hai takay aap unhen darayen jin kay pass aap say pehlay koi daraney wala nahi aaya takay woh raah-e-raast per aajyen.
کیا لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پیغمبر نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ نہیں ( اے پیغمبر ) یہ تو وہ حق ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے اس لیے آیا ہے کہ تم اس کے ذریعے ان لوگوں کو خبردار کرو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا ، ( ١ ) تاکہ وہ صحیح راستے پر آجائیں ۔
کیا کہتے ہیں ( ف۳ ) ان کی بنائی ہوئی ہے ( ف٤ ) بلکہ وہی حق ہے تمہارے رب کی طرف سے کہ تم ڈراؤ ایسے لوگوں کو جن کے پاس تم سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہ آیا ( ف۵ ) اس امید پر کہ وہ راہ پائیں ،
کیا 2 یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اسے خود گھڑ لیا ہے ؟ 3 نہیں بلکہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے 4 تاکہ تو متنبہ کرے ایک ایسی قوم کو جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا ، شاید کہ وہ ہدایت پا جائیں 5
کیا کفار و مشرکین یہ کہتے ہیں کہ اسے اس ( رسول ) نے گھڑ لیا ہے ۔ بلکہ وہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈر سنائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا تاکہ وہ ہدایت پائیں
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :2 اوپر کے تمہیدی فقرے کے بعد مشرکین مکہ کے پہلے اعتراض کو لیا جا رہا ہے جو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر کرتے تھے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :3 یہ محض سوال و استفہام نہیں ہے بلکہ اس میں سخت تعجب کا انداز پایا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ ان ساری باتوں کے باوجود ، جن کی بنا پر اس کتاب کا مُنزَّل من اللہ ہونا ہر شک و شبہ سے بالا تر ہے ، کیا یہ لوگ ایسی صریح ہٹ دھرمی کی بات کہہ رہے ہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اسے خود تصنیف کر کے جھوٹ موٹ اللہ ربّ العالمین کی طرف منسوب کر دیا ہے ؟ اتنا لغو اور بے سر و پا الزام رکھتے ہوئے کوئی شرم ان کو نہیں آتی؟ انہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ جو لوگ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اور ان کے کام اور کلام کو جانتے ہیں اور اس کتاب کو بھی سمجھتے ہیں ، وہ اس بیہودہ الزام کو سن کر کیا رائے قائم کریں گے ؟ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :4 جس طرح پہلی آیت میں لَا رَیْبَ فِیْہِ ، کہنا کافی سمجھا گیا تھا اور اس سے بڑھ کر کوئی استدلال قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے حق میں پیش کر نے کی ضرورت نہ سمجھی گئی تھی ، اسی طرح اب اس آیت میں بھی کفار مکہ کے الزام افترا پر صرف اتنی بات ہی کہنے پر اکتفا کیا جا رہا ہے کہ یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے اس کی وجہ وہی ہے جو اوپر حاشیہ نمبر ۱ میں ہم بیان کر چکے ہیں ۔ کون ، کس ماحول میں ، کس شان کے ساتھ یہ کتاب پیش کر رہا تھا ، یہ سب کچھ سامعین کے سامنے موجود تھا ۔ اور یہ کتاب بھی اپنی زبان اور اپنے ادب اور مضامین کے ساتھ سب کے سامنے تھی ۔ اور اس کے اثرات و نتائج بھی مکہ کی اس سوسائٹی میں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ۔ اس صورت حال میں اس کتاب کا رب العالمین سے آیا ہوا حق ہونا ایسا صریح امر واقعہ تھا جسے صرف نعمتی طور پر بیان کر دینا ہی کفار کے الزام کی تردید کے لیے کافی تھا ۔ اس پر کسی استدلال کی کوشش بات کو مضبوط کرنے کے بجائے الٹی اس کمزور کرنے کی موجب ہوتی ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے دن کے وقت سورج چمک رہا ہو اور کوئی ڈھیٹ آدمی کہے کہ یہ اندھیری رات ہے ۔ اس کے جواب میں صرف یہی کہنا کافی ہے کہ تم اسے رات کہتے ہو ؟ یہ روز روشن تو سامنے موجود ہے ۔ اس کے بعد دن کے موجود ہونے پر اگر آپ منطقی دلیلیں قائم کریں گے تو اپنے جواب کے زور میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے بلکہ درحقیقت اس کے زور کو کچھ کم ہی کر دیں گے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :5 یعنی جس کا حق ہونا اور من جانب اللہ ہونا قطعی و یقینی امر ہے اسی طرح اس کا مبنی بر حکمت ہونا اور خود تم لوگوں کے لیے خدا کی ایک رحمت ہونا بھی ظاہر ہے ۔ تم خود جانتے کہ صدہا برس سے تمہارے اندر کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے ۔ تم خود جانتے ہو کہ تمہاری ساری قوم جہالت اور اخلاقی پستی اور سخت پسماندگی میں مبتلا ہے ۔ اس حالت میں اگر تمہیں بیدار کرنے اور راہ راست دکھانے کے لیے ایک پیغمبر تمہارے درمیان بھیجا گیا ہے تو اس پر حیران کیوں ہوتے ہو ۔ یہ تو ایک بڑی ضرورت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے اور تمہاری اپنی بھلائی کے لیے کیا ہے ۔ واضح رہے کہ عرب میں دین حق کی روشنی سب سے پہلے حضرت ہود علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کے ذریعہ سے پہنچی تھی جو زمانۂ قبل تاریخ میں گزرے ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام آئے جن کا زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ڈھائی ہزار برس قبل گزرا ہے ۔ اس کے بعد آخری پیغمبر جو عرب کی سر زمین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھیجے گئے وہ حضرت شعیب علیہ السّلام تھے ۔ اور ان کی آمد پر بھی دو ہزار برس گزر چکے تھے ۔ یہ اتنی طویل مدت ہے کہ اس کے لحاظ سے یہ کہنا بالکل بجا تھا کہ اس قوم کے اندر کوئی متنبہ کرنے والا نہیں آیا ۔ اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس قوم میں کبھی کوئی متنبہ کرنے والا نہ آیا تھا ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مدت دراز سے یہ قوم ایک متنبہ کرنے والے کی محتاج چلی آ رہی ہے ۔ یہاں ایک اور سوال سامنے آ جاتا ہے جس کو صاف کر دینا ضروری ہے ۔ اس آیت کو پڑھتے ہوئے آدمی کے ذہن میں یہ کھٹک پیدا ہوتی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے صدہا برس تک عربوں میں کوئی نبی نہیں آیا تو اس جاہلیت کے دور میں گزرے ہوئے لوگوں سے آخر باز پرس کس بنیاد پر ہوگی ؟ انہیں معلوم ہی کب تھی کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیا ہے ؟ پھر اگر وہ گمراہ تھے تو اپنی اس گمراہی کے ذمہ دار وہ کیسے قرار دیے جا سکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دین کا تفصیلی علم چاہے اس جاہلیت کے زمانہ میں لوگوں کے پاس نہ رہا ہو ، مگر یہ بات اس زمانے میں بھی لوگوں سے پوشیدہ نہ تھی کہ اصل دین توحید ہے اور انبیاء علیہم السلام نے کبھی بت پرستی نہیں سکھائی ہے ۔ یہ حقیقت ان روایات میں بھی محفوظ تھی جو عرب کے لوگوں کو اپنی سر زمین کے انبیاء سے پہنچی تھیں ، اور اسے قریب کی سرزمین میں آئے ہوئے انبیاء حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد ، حضرت سلیمان اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی تعلیمات کے واسطے سے بھی وہ جانتے تھے ۔ عرب کی روایات میں یہ بات بھی مشہور و معروف تھی کہ قدیم زمانہ میں اہل عرب کا اصل دین ، دین ابراہیمی ( علیہ السلام ) تھا اور بت پرستی ان کے ہاں عُمرو بن لُحیّ نامی ایک شخص نے شروع کی تھی ۔ شرک و بت پرستی کے رواج عام کے باوجود عرب کے مختلف حصوں میں جگہ جگہ ایسے لوگ موجود تھے جو شرک سے انکار کرتے تھے ، توحید کا اعلان کرتے تھے اور بتوں پر قربانیاں کرنے کی علانیہ مذمت کرتے تھے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے بالکل قریب زمانے میں قُسّ بن ساعِد ۃالایاوی ، اُمَیَّہ بن ابی الصَّلْت ، سُوْید بن عُمرو المُصْطَلِقی ، وکیع بن سَعَمہ بن زُہَیر الاِیاوی ، عُمرو بن جُندُب الجُہنِی ، ابو قیس صَرمہ بن ابی انَس ، زید بن عُمرو بن نُفَیل ، ورقہ بن نَوفَل ، عثمان بن الحُوَیزِث ، عبیداللہ بن جَحش ، عامر بن الظَّرب العَدْوانی ، عَلّاف بن شہاب التَّمیمی ، المُتَلَمِسّ بن اُمَیّۃ الکنانی ، زُہَیر بن ابی سَلْمیٰ ، خالد بن سِنان بن غَیث ، العَبُسی ، عبداللہ القُضَاعِی اور ایسے ہی بہت سے لوگوں کے حالات ہمیں تاریخوں میں ملتے ہیں جنہیں حُنَفَاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ یہ سب لوگ علی الا علان توحید کو اصل دین کہتے تھے اور مشرکین کے مذہب سے اپنی بے تعلقی کا صاف صاف اظہار کرتے تھے ۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ تخیل انبیاء علیہم السلام کی سابقہ تعلیمات کے باقی ماندہ اثرات ہی سے آیا تھا ۔ اس کے علاوہ یمن میں چوتھی پانچویں صدی عیسوی کے جو کتبات آثار قدیمہ کی جدید تحقیقات کے سلسلے میں برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں وہاں ایک توحیدی مذہب موجود تھا جس کے پیرو الرحمان اور ربّ السّماء والارض ہی کو اِلٰہ واحد تسلیم کرتے تھے ۔ ۳۷۸ عیسوی کا ایک کتبہ ایک عبادت گاہ کے کھنڈر سے ملا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ یہ معبد الٰہ ذو سَموی یعنی الٰہ السماء کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے ۔ ٤٦۵ عیسوی کے ایک کتبہ میں بنصر وردا الٰھن بعل سمین وارضین ( بنصر و بعون الالٰہ ربّ السماء والارْض ) کے الفاظ لکھے ہیں جو عقیدۂ توحید پر صریح دلالت کرتے ہیں ۔ اسی دور کا ایک اور کتبہ ایک قبر پر ملا ہے جس میں بِخَیل رحمنن ( یعنی استعین بحول الرحمٰن ) کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں ، اسی طرح شمال عرب میں دریائے فرات اور قِنَّسرین کے درمیان زَبَد کے مقام پر ۵۱۲ عیسوی کا ایک کتبہ ملا ہے جس میں بسْم الالٰہ لَا عِزَّ اِلَّا لَہ لَا شُکرَ اِلَّا لَہ کے الفاظ پائے جاتے ہیں ۔ یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے انبیاء سابقین کی تعلیمات کے آثار عرب سے بالکل مٹ نہیں گئے تھے اور کم از کم اتنی بات یاد دلانے کے لیے بہت سے ذرائع موجود تھے کہ تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، صفحات ٤٦٤ ۔ ٤٦۵ )