Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
ثُمَّ سَوّٰٮهُ وَنَفَخَ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِهٖ‌ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَالۡاَفۡـــِٕدَةَ ‌ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿9﴾
جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے ( اس پر بھی ) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو ۔
ثم سوىه و نفخ فيه من روحه و جعل لكم السمع و الابصار و الافدة قليلا ما تشكرون
Then He proportioned him and breathed into him from His [created] soul and made for you hearing and vision and hearts; little are you grateful.
Jissay theek thaak ker kay apni rooh phonki ussi ney tumharay kaan aankhen aur dil banaye ( iss per bhi ) tum boht hi thora ehsan mantay ho.
پھر اسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی ، اور ( انسانو ) تمہارے لیے کان ، آنکھیں اور دل پیدا کیے ۔ تم لوگ شکر تھوڑا ہی کرتے ہو ۔
پھر اسے ٹھیک کیا اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی ( ف۱۵ ) اور تمہیں کان اور آنکھیں اور دل عطا فرمائے ( ف۱٦ ) کیا ہی تھوڑا حق مانتے ہو ،
پھر اسے نک سک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی16 ، اور تم کو کان دیے ، آنکھیں دیں اور دل دیے 17 ۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو 18
پھر اس ( میں اعضاء ) کو درست کیا اور اس میں اپنی روحِ ( حیات ) پھونکی اور تمہارے لئے ( رحمِ مادر ہی میں پہلے ) کان اور ( پھر ) آنکھیں اور ( پھر ) دل و دماغ بنائے ، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو
سورہ سجدۃ حاشیۃ: 15 یعنی انتہائی باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء وجوارح کے ساتھ مکمل کردیا ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :16 روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے ، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل و تمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے ، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقات ارضی سے ممتاز ایک صاحب شخصیت ہستی ، صاحب اَنا ہستی ، اور حامل خلافت ہستی بنتا ہے ۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی ملک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہو کر اس کی چیز کہلاتی ۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم ، فکر ، شعور ، ارادہ ، فیصلہ ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو ہیں ۔ ان کا سر چشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے ، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے ، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے ۔ یہ اوصاف کسی بے علم ، بے دانش اور بے اختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جِلد دوّم ، صفحات ۵۰٤ ۔ ۵۰۵ ) ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :17 یہ ایک لطیف انداز بیان ہے ۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا ۔ اس کی تخلیق کی ، اس کی نسل چلائی ، اس کو نِک سُک سے درست کیا ، اس کے اندر روح پھونکی ۔ اس لیے اس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا ۔ پھر جب روح پھونک دی گئی تو اب اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ تم کو کان دیے ، تم کو آنکھیں دیں ، تم کو دل دیے اس لیے کہ حامل روح ہو جانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اسے مخاطب کیا جائے ۔ کان اور آنکھوں سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے ۔ اگرچہ حصول علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامہ بھی ہیں ، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں ، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ۔ اس کے بعد دل سے مراد وہ ذہن ( Mind ) ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :18 یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے ۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے ۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے ۔ یہ دل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کرو ، نہ اس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کر دو ، اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو ۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریت یا شرک اختیار کرتے ہو ، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو ، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہو جاتے ہو ، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے ، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر ، یا ایک بھیڑیا ، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوا بنانا چاہیے تھا ۔