Surah

Information

Surah # 32 | Verses: 30 | Ruku: 3 | Sajdah: 1 | Chronological # 75 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Late Makkah phase (620 - 622 AD). Except 16-20, from Madina
وَقَالُوۡٓا ءَاِذَا ضَلَلۡنَا فِى الۡاَرۡضِ ءَاِنَّا لَفِىۡ خَلۡقٍ جَدِيۡدٍ ؕ ‌بَلۡ هُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّهِمۡ كٰفِرُوۡنَ‏ ﴿10﴾
اور انہوں نے کہا کیا جب ہم زمین میں رل مل جائیں گے کیا پھر نئی پیدائش میں آجائیں گے؟ بلکہ ( بات یہ ہے ) کہ وہ لوگ اپنے پروردگار کی ملاقات کے منکر ہیں ۔
و قالوا ءاذا ضللنا في الارض ءانا لفي خلق جديد بل هم بلقا ربهم كفرون
And they say, "When we are lost within the earth, will we indeed be [recreated] in a new creation?" Rather, they are, in [the matter of] the meeting with their Lord, disbelievers.
Aur enhon ney kaha kiya jab hum zamin mein rul mill jayen gay kiya phir naee pedaeesh mein aajeyn gay? Bulkay ( baat yeh hai ) kay woh log apnay perwerdigar ki mulaqat kay munkir hain.
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : کیا جب ہم زمین میں رل کر کھو جائیں گے ، تو کیا اس وقت ہم کسی نئے جنم میں پیدا ہوں گے ؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے پروردگار سے جاملنے کا انکار کرتے ہیں ۔
اور بولے ( ف۱۷ ) کیا جب ہم مٹی میں مل جائیں گے ( ف۱۸ ) کیا پھر نئے بنیں گے ، بلکہ وہ اپنے رب کے حضور حاضری سے منکر ہیں ( ف۱۹ )
اور یہ لوگ19 کہتے ہیں جب ہم مٹی میں رل مل چکے ہوں گے تو کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں 20
اور کفار کہتے ہیں کہ جب ہم مٹی میں مِل کر گم ہوجائیں گے تو ( کیا ) ہم اَز سرِ نَو پیدائش میں آئیں گے ، بلکہ وہ اپنے رب سے ملاقات ہی کے مُنکِر ہیں
سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :19 رسالت اور توحید پر کفار کے اعتراضات کا جواب دینے کے بعد اب اسلام کے تیسرے بنیادی عقیدے یعنی آخرت پر ان کے اعتراض کو لے کر اس کا جواب دیا جاتا ہے ۔ آیت میں وَقَالُوْا کا واؤ عطف مضمون ماسبق سے اس پیراگراف کا تعلق جوڑتا ہے ۔ گویا ترتیب کلام یوں ہے کہ وہ کہتے ہیں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول نہیں ہیں ، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم مر کر دوبارہ نہ اٹھیں گے ۔ سورة السَّجْدَة حاشیہ نمبر :20 اوپر کے فقرے اور اس فقرے کے درمیان پوری ایک داستان کی داستان ہے جسے سامع کے ذہن پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ کفار کا جو اعتراض پہلے فقرے میں نقل گیا ہے وہ اتنا مہمل ہے کہ اس کی تردید کی حاجت محسوس نہیں کی گئی ۔ اس کا محض نقل کر دینا ہی اس کی لغویت ظاہر کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ۔ اس لیے کہ ان کا اعتراض جن دو اجزاء پر مشتمل ہے وہ دونوں ہی سراسر غیر معقول ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ ہم مٹی میں رَل مِل چکے ہوں گے آخر کیا معنی رکھتا ہے ۔ ہم جس چیز کا نام ہے وہ مٹی میں کب رَلتی مِلتی ہے ؟ ( مٹی میں تو صرف وہ جسم ملتا ہے جس سے ہم نکل چکا ہوتا ہے ۔ اس جسم کا نام ہم نہیں ہے ۔ زندگی کی حالت میں جب اس جسم کے اعضاء کاٹے جاتے ہیں تو عضو پر عضو کٹتا چلا جاتا ہے مگر ہم ہم پورا کا پورا اپنی جگہ موجود رہتا ہے ۔ اس کا کوئی جز بھی کسی کٹے ہوئے عضو کے ساتھ نہیں جاتا ۔ اور جب یہ ہم کسی جسم میں سے نکل جاتا ہے تو پورا جسم موجود ہوتے ہوئے بھی اس پر اس ہم کے کسی ادنی شائبے تک کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ اسی لیے تو ایک عاشق جاں نثار اپنے معشوق کے مردہ جسم کو لے جا کر دفن کر دیتا ہے ، کیونکہ معشوق اس جسم سے نکل چکا ہوتا ہے ۔ اور وہ معشوق نہیں بلکہ اس خالی جسم کو دفن کرتا ہے جس میں کبھی اس کا معشوق رہتا تھا ۔ پس معترضین کے اعتراض کا پہلا مقدمہ ہی بے بنیاد ہے ۔ رہا اس کا دوسرا جز: کیا ہم پھر نئے سرے سے پیدا کیے جائیں گے ؟ تو یہ انکار و تعجب کے انداز کا سوال سرے سے پیدا ہی نہ ہوتا اگر معترضین نے بات کرنے سے پہلی اس ہم اور اس کے پیدا کیے جانے کے مفہوم پر ایک لمحہ کے لیے کچھ غور کر لیا ہوتا ۔ اس ہم کی موجودہ پیدائش اس کے سوا کیا ہے کہ کہیں کوئلہ اور کہیں سے لوہا اور کہیں سے چونا اور اسی طرح کے دوسرے اجزاء جمع ہوئے اور اس کا لبد خاکی میں یہ ہم براجمان ہو گیا ۔ پھر اس کی موت کے بعد کیا ہوتا ہے ؟ اس لبدِ خاکی میں سے جب ہم نِکل جاتا ہے تو اس کا مکان تعمیر کرنے کے لیے جو اجزاء زمین کے مختلف حصوں سے فراہم کیے گئے تھے وہ سب اسی زمین میں واپس چلے جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جس نے پہلے اس ہم کو یہ مکان بنا کر دیا تھا ، کیا وہ دوبارہ اسی سر و سامان سے وہی مکان بنا کر اسے از سرنو اس میں نہیں بسا سکتا ؟ یہ چیز جب پہلے ممکن تھی اور واقعہ کی صورت میں رونما ہو چکی ہے ، تو دوبارہ اس کے ممکن ہونے اور واقعہ بننے میں آخر کیا امر مانع ہے ؟ یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں ذرا سی عقل آدمی استعمال کرے تو خود ہی سمجھ سکتا ہے ۔ لیکن وہ اپنی عقل کو اس رخ پر کیوں نہیں جانے دیتا ؟ کیا وجہ ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے حیات بعد الموت اور آخرت پر اس طرح کے لا یعنی اعتراضات جڑتا ہے ؟ بیچ کی ساری بحث چھوڑ کر اللہ تعالیٰ دوسرے فقرے میں اسی سوال کا جواب دیتا ہے کہ دراصل یہ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں ۔ یعنی اصل بات یہ نہیں ہے کہ دوبارہ پیدائش کوئی بڑی ہی انوکھی اور بعید از امکان بات ہے جو ان کی سمجھ میں نہ آسکتی ہو ، بلکہ دراصل جو چیز انہیں یہ بات سمجھنے سے روکتی ہے وہ ان کی یہ خواہش ہے کہ ہم زمین میں چھوٹے پھریں اور دل کھول کر گناہ کریں اور پھر نِلُوہ ( Scot-ires ) یہاں سے نکل جائیں ۔ پھر ہم سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہو ۔ پھر اپنے کرتوتوں کا کوئی حساب ہمیں نہ دینا پڑے ۔
انسان اور فرشتوں کا ساتھ کفار کا عقیدہ بیان ہو رہا ہے کہ وہ مرنے کے بعد جینے کے قائل نہیں ۔ اور اسے وہ محال جانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب ہمارے ریزے ریزے جدا ہوجائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجائیں گے پھر بھی کیا ہم نئے سرے سے بنائے جاسکتے ہیں ۔ افسوس یہ لوگ اپنے اوپر اللہ کو بھی قیاس کرتے ہیں اور اپنی محدود قدرت پر اللہ کی نامعلوم قدرت کا اندازہ کرتے ہیں ۔ مانتے ہیں جانتے ہیں کہ اللہ نے اول بار پیدا کیا ہے ۔ تعجب ہے پھر دوبارہ پیدا کرنے پر اسے قدرت کیوں نہیں مانتے ؟ حالانکہ اس کا تو صرف فرمان چلتا ہے ۔ جہاں کہا یوں ہوجا وہیں ہوگیا ۔ اسی لئے فرمادیا کہ انہیں اپنے پروردگار کی ملاقات سے انکار ہے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ ملک الموت جو تمہاری روح قبض کرنے پر مقرر ہیں تمہیں فوت کردیں گے ۔ اس آیت میں بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ملک الموت ایک فرشتہ کا لقب ہے ۔ حضرت براکی وہ حدیث جس کا بیان سورۃ ابراہیم میں گذرچکا ہے اس سے بھی پہلی بات سمجھ میں آتی ہے اور بعض آثار میں ان کا نام عزرائیل بھی آیا ہے اور یہی مشہور ہے ۔ ہاں ان کے ساتھی اور ان کے ساتھ کام کرنے والے فرشتے بھی ہیں جو جسم سے روح نکالتے ہیں اور نرخرے تک پہنچ جانے کے بعد ملک الموت اسے لے لیتے ہیں ۔ ان کے لئے زمین سمیٹ دی گئی ہیں اور ایسی ہی ہے جیسے ہمارے سامنے کوئی طشتری رکھی ہوئی ہو ۔ کہ جو چاہا اٹھالیا ۔ ایک مرسل حدیث بھی اس مضمون کی ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ کا مقولہ بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک انصاری کے سرہانے ملک الموت کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ملک الموت میرے صحابی کے ساتھ آسانی کیجئے ۔ آپ نے جواب دیا کہ اے اللہ کے نبی تسکین خاطر رکھئے اور دل خوش کیجئے واللہ میں خود با ایمان اور نہایت نرمی کرنے والا ہوں ۔ سنو! یارسول صلی اللہ علیہ وسلم قسم ہے اللہ کی تمام دنیا کے ہر کچے پکے گھر میں خواہ وہ خشکی میں ہو یاتری میں ہر دن میں میرے پانچ پھیرے ہوتے ہیں ۔ ہر چھوٹے بڑے کو میں اس سے بھی زیادہ جانتا ہوں جتنا وہ اپنے آپ کو جانتا ہے ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقین مانئے اللہ کی قسم میں تو ایک مچھر کی جان قبض کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتاجب تک مجھے اللہ کا حکم نہ ہو ۔ حضرت جعفر کا بیان ہے کہ ملک الموت علیہ السلام کا دن میں پانچ وقت ایک ایک شخص کو ڈھونڈ بھال کرنا یہی ہے کہ آپ پانچوں نمازوں کے وقت دیکھ لیاکرتے ہیں اگر وہ نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو تو فرشتے اس کے قریب رہتے ہیں اور شیطان اس سے دور رہتا ہے اور اس کے آخری وقت فرشتہ اسے لا الہ اللہ محمدرسول اللہ کی تلقین کرتا ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر دن ہر گھر پر ملک الموت دو دفعہ آتے ہیں ۔ کعب احبار اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرماتے ہیں کہ ہر دروازے پر ٹھہر کر دن بھر میں سات مرتبہ نظر مارتے ہیں کہ اس میں کوئی وہ تو نہیں جس کی روح نکالنے کا حکم ہوچکا ہو ۔ پھر قیامت کے دن سب کا لوٹنا اللہ کی طرف ہے قبروں سے نکل کر میدان محشر میں اللہ کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اپنے کئے کا پھل پانا ہے ۔