Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰذِبِيۡنَ‏ ﴿61﴾
اس لیے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آؤ ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کو اور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلا لیں ، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں ۔
فمن حاجك فيه من بعد ما جاءك من العلم فقل تعالوا ندع ابناءنا و ابناءكم و نساءنا و نساءكم و انفسنا و انفسكم ثم نبتهل فنجعل لعنت الله على الكذبين
Then whoever argues with you about it after [this] knowledge has come to you - say, "Come, let us call our sons and your sons, our women and your women, ourselves and yourselves, then supplicate earnestly [together] and invoke the curse of Allah upon the liars [among us]."
Iss liye jo shaks aap kay pass iss ilm kay aajaney kay baad bhi aap say iss mein jhagray to aap keh den kay aao hum tum apney apney farzandon ko aur hum tum apni apni aurton ko aur hum tum khas apni apni janon ko bula len phir hum aajzi kay sath iltija keren aur jhooton per Allah ki laanat keren.
تمہارے پاس ( حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے واقعے کا ) جو صحیح علم آگیا ہے اس کے بعد بھی جو لوگ اس معاملے میں تم سے بحث کریں تو ان سے کہہ دو کہ :‘‘ آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو ، اور ہم اپنی عورتوں کو اور تم اپنی عورتوں کو ، اور ہم اپنے لوگوں کو اور تم اپنے لوگوں کو ، پھر ہم سب ملکر اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں ، اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں ۔ ( ٢٥ )
پھر اے محبوب! جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آؤ ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں ، پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں ( ف۱۱٦ )
یہ علم آجانے کے بعد اب جو کوئی اس معاملہ میں تم سے جھگڑا کرے تو اے محمد! اس سے کہو کہ آؤ ہم اور تم خود بھی آجائیں اور اپنے اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو ۔ 55
پس آپ کے پاس علم آجانے کے بعد جو شخص عیسٰی ( علیہ السلام ) کے معاملے میں آپ سے جھگڑا کرے تو آپ فرما دیں کہ آجاؤ ہم ( مل کر ) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی ( ایک جگہ پر ) بلا لیتے ہیں ، پھر ہم مباہلہ ( یعنی گڑگڑا کر دعا ) کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اﷲ کی لعنت بھیجتے ہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :55 فیصلہ کی یہ صورت پیش کرنے سے دراصل یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ وفد نجران جان بوجھ کر ہٹ دھرمی کر رہا ہے ۔ اوپر کی تقریر میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کسی کا جواب بھی ان لوگوں کے پاس نہ تھا ۔ مسیحیت کے مختلف عقائد میں سے کسی کے حق میں بھی وہ خود اپنی کتب مقدسہ کی ایسی سند نہ پاتے تھے جس کی بنا پر کامل یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کر سکتے کہ ان کا عقیدہ امر واقعہ کے عین مطابق ہے اور حقیقت اس کے خلاف ہرگز نہیں ہے ۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کی تعلیم اور آپ کے کارناموں کو دیکھ کر اکثر اہل وفد اپنے دلوں میں آپ کی نبوت کے قائل بھی ہو گئے تھے یا کم از کم اپنے انکار میں متزلزل ہو چکے تھے ۔ اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ اچھا اگر تمہیں اپنے عقیدے کی صداقت کا پورا یقین ہے تو آؤ ہمارے مقابلہ میں دعا کرو کہ جو جھوٹا ہو اس پر خدا کی لعنت ہو ، تو ان میں سے کوئی اس مقابلہ کے لیے تیار نہ ہوا ۔ اس طرح یہ بات تمام عرب کے سامنے کھل گئی کہ نجرانی مسیحیت کے پیشوا اور پادری ، جن کے تقدس کا سکہ دور دور تک رواں ہے ، دراصل ایسے عقائد کا اتباع کر رہے ہیں جن کی صداقت پر خود انہیں کامل اعتماد نہیں ہے ۔