Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اَشِحَّةً عَلَيۡكُمۡ ‌‌ۖۚ فَاِذَا جَآءَ الۡخَوۡفُ رَاَيۡتَهُمۡ يَنۡظُرُوۡنَ اِلَيۡكَ تَدُوۡرُ اَعۡيُنُهُمۡ كَالَّذِىۡ يُغۡشٰى عَلَيۡهِ مِنَ الۡمَوۡتِ‌ ۚ فَاِذَا ذَهَبَ الۡخَـوۡفُ سَلَقُوۡكُمۡ بِاَ لۡسِنَةٍ حِدَادٍ اَشِحَّةً عَلَى الۡخَيۡـرِ‌ ؕ اُولٰٓٮِٕكَ لَمۡ يُؤۡمِنُوۡا فَاَحۡبَطَ اللّٰهُ اَعۡمَالَهُمۡ‌ ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا‏ ﴿19﴾
تمہاری مدد میں ( پورے ) بخیل ہیں پھر جب خوف و دہشت کا موقعہ آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جما دیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے بڑی باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں یہ ایمان لائے ہی نہیں ہیں اللہ تعالٰی نے ان کے تمام اعمال نابود کر دئیے ہیں اور اللہ تعالٰی پر یہ بہت ہی آسان ہے ۔
اشحة عليكم فاذا جاء الخوف رايتهم ينظرون اليك تدور اعينهم كالذي يغشى عليه من الموت فاذا ذهب الخوف سلقوكم بالسنة حداد اشحة على الخير اولىك لم يؤمنوا فاحبط الله اعمالهم و كان ذلك على الله يسيرا
Indisposed toward you. And when fear comes, you see them looking at you, their eyes revolving like one being overcome by death. But when fear departs, they lash you with sharp tongues, indisposed toward [any] good. Those have not believed, so Allah has rendered their deeds worthless, and ever is that, for Allah , easy.
Tumhari madad mein ( pooray ) bakheel hain phir jab khof-o-dehshat ka moqa aajaye to aap enhen dekhen gay kay aap ki taraf nazar jama detay hain aur inn ki aankhen iss tarah ghoomti hain jaisay uss shaks ki jiss per maut ki ghashi taari ho. Phir jab khof jata rehta hai to tum per apni tez zabano say bari baaten banatay hain maal kay baray hi harees hain yeh eman laye hi nahi hain Allah Taalaa ney inn kay tamam aemaal nabood ker diye hain aur Allah Taalaa per yeh boht hi aasan hai.
۔ ( اور وہ بھی ) تمہارے ساتھ لالچ رکھتے ہوئے ( ١٧ ) چنانچہ جب خطرے کا موقع آجاتا ہے تو وہ تمہاری طرف چکرائی ہوئی آنکھوں سے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کسی پر موت کی غشی طاری ہورہی ہو ۔ پھر جب خطرہ دور ہوجاتا ہے تو تمہارے سامنے مال کی حرص میں تیز تیز زبانیں چلاتے ہیں ۔ ( ١٨ ) یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے ہیں ، اس لیے اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیے ہیں ، اور یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے ۔
تمہاری مدد میں گئی کرتے ( کمی کرتے ) ہیں پھر جب ڈر کا وقت آئے تم انھیں دیکھو گے تمہاری طرف یوں نظر کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں گھوم رہی ہیں جیسے کسی پر موت چھائی ہو پھر جب ڈر کا وقت نکل جائے ( ف٤۷ ) تمہیں طعنے دینے لگیں تیز زبانوں سے مال غنیمت کے لالچ میں ( ف٤۸ ) یہ لوگ ایمان لائے ہی نہیں ( ف٤۹ ) تو اللہ نے ان کے عمل اکارت کردیے ( ف۵۰ ) اور یہ اللہ کو آسان ہے ،
جو تمہارا ساتھ دینے میں سخت بخیل ہیں 30 خطرے کا وقت آ جائے تو اس طرح دیدے پھرا پھرا کر تمہاری طرف دیکھتے ہیں جیسے کسی مرنے والے پر غشی طاری ہو رہی ہو ، مگر جب خطرہ گزر جاتا ہے تو یہی لوگ فائدوں کے حریص بن کر قینچی کی طرح چلتی ہوئی زبانیں لیے تمہارے استقبال کو آ جاتے ہیں 31 یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائے ، اسی لیے اللہ نے ان کے سارے اعمال ضائع کر دیئے 32 اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان ہے 33
تمہارے حق میں بخیل ہو کر ( ایسا کرتے ہیں ) ، پھر جب خوف ( کی حالت ) پیش آجائے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کی طرف تکتے ہوں گے ( اور ) ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہوں گی جس پر موت کی غشی طاری ہو رہی ہو ، پھر جب خوف جاتا رہے تو تمہیں تیز زبانوں کے ساتھ طعنے دیں گے ( آزردہ کریں گے ، ان کا حال یہ ہے کہ ) مالِ غنیمت پر بڑے حریص ہیں ۔ یہ لوگ ( حقیقت میں ) ایمان ہی نہیں لائے ، سو اﷲ نے ان کے اعمال ضبط کر لئے ہیں اور یہ اﷲ پر آسان تھا
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :30 یعنی اپنی محنتیں ، اپنے اوقات ، اپنی فکر ، اپنے مال ، غرض کوئی چیز بھی وہ اس راہ میں صرف کرنے کے لیے بخوشی تیار نہیں ہیں جس میں مومنین صادقین اپنا سب کچھ جھونکے دے رہے ہیں ۔ جان کھپانا اور خطرے انگیز کرنا تو بڑی چیز ہے ، وہ کسی کام میں بھی کھلے دل سے اہل ایمان کا ساتھ نہیں دینا چاہتے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :31 لغت کے اعتبار سے اس آیت کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ لڑائی سے جب تم کامیاب پلٹے ہو تو وہ بڑے تپاک سے تمہارا استقبال کرتے ہیں اور چرب زبانی سے کام لے کر یہ دھونس جمانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم بھی بڑے مومن ہیں اور ہم نے بھی اس کام کو فروغ دینے میں حصہ لیا ہے ، لہٰذا ہم بھی مال غنیمت کے حق دار ہیں ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر فتح نصیب ہوتی ہے تو مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر یہ لوگ زبان کی بڑی تیزی دکھاتے ہیں اور بڑھ بڑھ کر مطالبے کرتے ہیں کہ لاؤ ہمارا حصہ ، ہم نے بھی خدمات انجام دی ہیں ، سب کچھ تم ہی لوگ نہ لوٹ لے جاؤ ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :32 یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو نمازیں انہوں نے پڑھیں ، جو روزے رکھے ، جو زکوٰتیں دیں ، اور بظاہر جو نیک کام بھی کیے ان سب کو اللہ تعالیٰ کالعدم قرار دے دیگا اور ان کا کوئی اجر انہیں نہ دے گا ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں فیصلہ اعمال کی ظاہری شکل پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ اس ظاہر کی تہہ میں ایمان اور خلوص ہے یا نہیں ۔ جب یہ چیز سرے سے ان کے اندر موجود ہی نہیں ہے تو یہ دکھاوے کے اعمال سراسر بے معنی ہیں ۔ اس مقام پر یہ امر گہری توجہ کا طالب ہے کہ جو لوگ اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اقرار کرتے تھے ، نمازیں پڑھتے تھے ، روزے رکھتے تھے ، زکوٰۃ بھی دیتے تھے ، اور مسلمانوں کے ساتھ ان کے دوسرے نیک کاموں میں بھی شریک ہوتے تھے ، ان کے بارے میں صاف صاف فیصلہ دے دیا گیا ہے کہ یہ سرے سے ایمان لائے ہی نہیں ۔ اور یہ فیصلہ صرف اس بنیاد پر دیا گیا ہے کہ کفر اور اسلام کی کشمکش میں جب کڑی آزمائش کا وقت آیا تو انہوں نے دوغلے پن کا ثبوت دیا ، دین کے مفاد یا اپنے مفاد کو ترجیح دی اور اسلام کی حفاظت کے لیے جان ، مال اور محنت صَرف کرنے میں دریغ کیا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کا اصل مدار یہ ظاہری اعمال نہیں ہیں ، بلکہ یہ سوال ہے کہ آدمی کی وفاداریاں کس طرف ہیں ۔ جہاں خدا اور اس کے دین سے وفاداری نہیں ہے وہاں اقرار ایمان اور عبادات اور دوسری نیکیوں کی کوئی قیمت نہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :33 یعنی ان کے اعمال کوئی وزن اور قیمت نہیں رکھتے کہ ان کو ضائع کر دینا اللہ کو گراں گزرے ۔ اور یہ لوگ کوئی زور بھی نہیں رکھتے کہ ان کے اعمال کو ضائع کرنا اس کے لیے دشوار ہو ۔