Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا‏ ﴿28﴾
اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں ۔
يايها النبي قل لازواجك ان كنتن تردن الحيوة الدنيا و زينتها فتعالين امتعكن و اسرحكن سراحا جميلا
O Prophet, say to your wives, "If you should desire the worldly life and its adornment, then come, I will provide for you and give you a gracious release.
Aey nabi! Apni biwiyon say keh do kay agar tum zindaganiy-e-duniya aur zeenat-e-duniya chahati ho to aao mein tumhen kuch dey dila doon aur tumhen achaee kay sath tukhsat ker doon.
اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہو کہ : اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ تحفے دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں ۔
اے غیب بتانے والے ( نبی ) ! اپنی بیبیوں سے فرمادے اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتی ہو ( ف۷۳ ) تو آؤ میں تمہیں مال دُوں ( ف۷٤ ) اور اچھی طرح چھوڑ دُوں ( ف۷۵ )
اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! 41 اپنی بیویوں سے کہو ، اگر تم دنیا اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ ، میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں ۔
اے نبیِ ( مکرَّم! ) اپنی اَزواج سے فرما دیں کہ اگر تم دنیا اور اس کی زینت و آرائش کی خواہش مند ہو تو آؤ میں تمہیں مال و متاع دے دوں اور تمہیں حسنِ سلوک کے ساتھ رخصت کر دوں
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :41 یہاں سے نمبر ۳۵ تک کی آیات جنگ احزاب اور بنی قریظہ سے متصل زمانے میں نازل ہوئی تھیں ۔ ان کا پس منظر ہم دیباچہ میں مختصراً بیان کر آئے ہیں ۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبد اللہ اس زمانے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے گرد بیٹھی ہیں اور آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خاموش ہیں ۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خطاب کر کے فرمایا : ھُنَّ کَمَا تَرٰی یَسْألْنَنِی النفقۃ ، یہ میرے گرد بیٹھی ہیں جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو ۔ یہ مجھ سے خرچ کے لیے روپیہ مانگ رہی ہیں ۔ اس پر دونوں صاحبوں نے اپنی اپنی بیٹیوں کو ڈانٹا اور ان سے کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرتی ہو اور وہ چیز مانگتی ہو جو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس نہیں ہے ۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وقت کیسی مالی مشکلات میں مبتلا تھے اور کفر و اسلام کی انتہائی شدید کشمکش کے زمانے میں خرچ کے تقاضے مزاج مبارک پر کیا اثر ڈال رہے تھے ۔
امہات المومنین سے پرسش! دین یا دنیا ؟ ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی بیویوں کو دو باتوں میں سے ایک کی قبولیت کا اختیار دیں ۔ اگر تم دنیا پر اور اس کی رونق پر مائل ہوئی ہو تو آؤ میں تمہیں اپنے نکاح سے الگ کر دیتا ہوں اور اگر تم تنگی ترشی پر یہاں صبر کر کے اللہ کی خوشی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی چاہتی ہو اور آخرت کی رونق پسند ہے تو صبر و سہار سے میرے ساتھ زندگی گذارو ۔ اللہ تمہیں وہاں کی نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا ۔ اللہ آپ کی تمام بیویوں سے جو ہماری مائیں ہیں خوش رہے ۔ سب نے اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور دار آخرت کو ہی پسند فرمایا جس پر رب راضی ہو اور پھر آخرت کے ساتھ ہی دنیا کی مسرتیں بھی عطا فرمائیں ۔ حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ اس آیت کے اترتے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ میں ایک بات کا تم سے ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے مشورہ کر کے جواب دینا ۔ یہ تو آپ جانتے ہی تھے کہ ناممکن ہے کہ میرے والدین مجھے آپ سے جدائی کرنے کا مشورہ دیں ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ماں باپ سے مشورہ کرنے کی کونسی بات ہے ۔ مجھے اللہ پسند ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند ہیں اور آخرت کا گھر پسند ہے ۔ آپ کی اور تمام بیویوں نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا اور روایت میں ہے کہ تین دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ دیکھو بغیر اپنے ماں باپ سے مشورہ کئے کوئی فیصلہ نہ کر لینا پھر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا جواب سنا تو آپ خوش ہوگئے اور ہنس دیئے ، پھر آپ دوسری ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے گئے ان سے پہلے ہی فرما دیتے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تو یہ جواب دیا ہے وہ کہتی تھیں یہی جواب ہمارا بھی ہے ۔ فرماتی ہیں کہ اس اختیار کے بعد جب ہم نے آپ کو اختیار کیا تو اختیار طلاق میں شمار نہیں ہوا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو بکر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا لوگ آپ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ اندر تشریف فرما تھے اجازت ملی نہیں ۔ اتنے میں حضرت عمر بھی آگئے اجازت چاہی لیکن انہیں بھی اجازت نہ ملی تھوڑی دیر میں دونوں کو یاد فرمایا گیا ۔ گئے دیکھا کہ آپ کی ازواج مطہرات آپ کے پاس بیٹھی ہیں اور آپ خاموش ہیں ۔ حضرت عمر نے کہا دیکھو میں اللہ کے پیغمبر کو ہنسا دیتا ہوں ۔ پھر کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاش کہ آپ دیکھتے میری بیوی نے آج مجھ سے روپیہ پیسہ مانگا میرے پاس تھا نہیں جب زیادہ ضد کرنے لگیں تو میں نے اٹھ کر گردن ناپی ۔ یہ سنتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے یہاں بھی یہی قصہ ہے دیکھو یہ سب بیٹھی ہوئی مجھ سے مال طلب کر رہی ہیں؟ ابو بکر حضرت عائشہ کی طرف لپکے اور عمر حضرت حفصہ کی طرف اور فرمانے لگے افسوس تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ مانگتی ہو جو آپ کے پاس نہیں ۔ وہ تو کہئے خیر گذری جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک لیا ورنہ عجب نہیں دونوں برگ اپنی اپنی صاحبزادیوں کو مارتے ۔ اب تو سب بیویاں کہنے لگیں کہ اچھا قصور ہوا اب سے ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس طرح تنگ نہ کریں گی ۔ اب یہ آیتیں اتریں اور دنیا اور آخرت کی پسندیدگی میں اختیار دیا گیا ۔ سب سے پہلے آپ حضرت صدیقہ کے پاس گئے انہوں نے آخرت کو پسند کیا جیسے کہ تفصیل وار بیان گذر چکا ۔ ساتھ ہی درخواست کی کہ یارسول اللہ آپ اپنی کسی بیوی سے یہ نہ فرمائیے گا کہ میں نے آپ کو اختیار کیا ۔ آپ نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے چھپانے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ میں سکھانے والا آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں مجھ سے تو جو دریافت کرے گی میں صاف صاف بتا دوں گا ۔ حضرت علی کا فرمان ہے کہ طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا تھا بلکہ دنیا یا آخرت کی ترجیح کا اختیار دیا تھا لیکن اس کی سند میں بھی انقطاع ہے اور یہ آیت کے ظاہری لفظوں کے بھی خلاف ہے کیونکہ پہلی آیت کے آخر میں صاف موجود ہے کہ آؤ میں تمہارے حقوق ادا کردوں اور تمہیں رہائی دے دوں اس میں علماء کرام کا گو اختلاف ہے کہ اگر آپ طلاق دے دیں تو پھر کسی کو ان سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ جائز ہے تاکہ اس طلاق سے وہ نتیجہ ملے یعنی دنیا طلبی اور دنیا کی زینت و رونق وہ انہیں حاصل ہو سکے واللہ اعلم ۔ جب یہ آیت اتری اور جب اس کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کو سنایا اس وقت آپ کی نوبیویاں تھیں ۔ پانچ تو قریش سے تعلق رکھتی تھیں عائشہ ، حفصہ ، سودہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہن اور صفیہ بنت جی قبیلہ نضر سے تھیں ، میمونہ بنت حارث ہلالیہ تھیں ، زینب بنت حجش اسدیہ تھیں اور جویریہ بنت حارث جو مصطلقیہ تھیں رضی اللہ عنہن وارضاھن اجمعین ۔