Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
قُلۡ يٰۤـاَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَـعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡـــًٔا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ‌ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡهَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ‏ ﴿64﴾
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں ، نہ اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں ، پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں
قل ياهل الكتب تعالوا الى كلمة سواء بيننا و بينكم الا نعبد الا الله و لا نشرك به شيا و لا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله فان تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون
Say, "O People of the Scripture, come to a word that is equitable between us and you - that we will not worship except Allah and not associate anything with Him and not take one another as lords instead of Allah ." But if they turn away, then say, "Bear witness that we are Muslims [submitting to Him]."
Aap keh dijiye kay aey ehal-e-kitab! Aisi insaf wali baat ki taraf aao jo hum mein tum mein barabar hai kay hum Allah Taalaa kay siwa kissi ki ibadat na keren na uss kay sath kissi ko shareek banayen na Allah Taalaa ko chor ker aapas mein aik doosray ko hi rab banayen. Pus agar woh mun pher len to tum keh do kay gawah raho hum to musalman hain.
۔ ( مسلمانو ! یہود و نصاری سے ) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو ، ( اور وہ یہ ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں ۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو : گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں ۔
تم فرماؤ ، اے کتابیو! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے ( ف۱۱۹ ) یہ کہ عبادت نہ کریں مگر خدا کی اور اس کا شریک کسی کو نہ کریں ( ف۱۲۰ ) اور ہم میں کوئی ایک دوسرے کو رب نہ بنالے اللہ کے سوا ( ف۱۲۱ ) پھر اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دو تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں ،
کہو ، 56 اے اہل کتاب! آؤ ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ۔ 57 یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ، اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنا لے ۔ ۔ ۔ ۔ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ۔ ہم تو مسلم ﴿صرف خدا کی بندگی و اطاعت کرنے والے ﴾ ہیں ۔
آپ فرما دیں: اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے ، ( وہ یہ ) کہ ہم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کو اﷲ کے سوا رب نہیں بنائے گا ، پھر اگر وہ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ ہو جاؤ کہ ہم تو اﷲ کے تابع فرمان ( مسلمان ) ہیں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :56 یہاں سے ایک تیسری تقریر شروع ہوتی ہے جس کے مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنگ بدر اور جنگ احد کے درمیانی دور کی ہے ۔ لیکن ان تینوں تقریروں کے درمیان مطالب کی ایسی قریبی مناسبت پائی جاتی ہے کہ شروع سورت سے لے کر یہاں تک کسی جگہ ربط کلام ٹوٹتا نظر نہیں آتا ۔ اسی بنا پر بعض مفسرین کو شبہہ ہوا ہے کہ یہ بعد کی آیات بھی وفد نجران والی تقریر ہی کے سلسلہ کی ہیں ۔ مگر یہاں سے جو تقریر شروع ہو رہی ہے اس کا اندازہ صاف بتا رہا ہے کہ اس کے مخاطب یہودی ہیں ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :57 یعنی ایک ایسے عقیدے پر ہم سے اتفاق کرلو جس پر ہم بھی ایمان لائے ہیں اور جس کے صحیح ہونے سے تم بھی انکار نہیں کر سکتے ۔ تمہارے اپنے انبیا سے یہی عقیدہ منقول ہے ۔ تمہاری اپنی کتب مقدسہ میں اس کی تعلیم موجود ہے ۔
یہودیوں اور نصرانیوں سے خطاب یہودیوں نصرانیوں اور انہی جیسے لوگوں سے یہاں خطاب ہو رہا ہے ، کلمہ کا اطلاق مفید جملے پر ہوتا ہے ، جیسے یہاں کلمہ کہہ کر پھر سوآء الخ کے ساتھ اس کی تعریف یوں کی گئی ہے ۔ سواء کے معنی عدل و انصاف جیسے ہم کہیں ہم تم برابر ہیں ، پھر اس کی تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہم ایک اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی بت کو نہ پوجیں صلیب ، تصویر ، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور نہ آگ کو نہ اور کسی چیز کو بلکہ تنہا اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں ، یہی عبادت تمام انبیاء کرام کی تھی ، جیسے فرمان ہے آیت ( وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ) 21 ۔ الانبیآء:25 ) یعنی تجھ سے پہلے جس جس رسول کو ہم نے بھیجا سب کی طرف یہی وحی کہ میرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کیا کرو اور جگہ ارشاد ہے آیت ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ) 16 ۔ النحل:36 ) یعنی ہر امت میں رسول بھیج کر ہم نے یہ اعلان کروایا کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا سب سے بچو ۔ پھر فرماتا ہے کہ آپس میں بھی ہم اللہ جل جلالہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب بنائیں ، ابن جریج فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں ایک دوسرے کی اطاعت نہ کریں ۔ عکرمہ فرماتے ہیں کسی کو سوائے اللہ تعالیٰ کے سجدہ نہ کریں ، پھر اگر یہ لوگ اس حق اور عدل دعوت کو بھی قبول نہ کریں تو انہیں تم اپنے مسلمان ہونے کا گواہ بنا لو ، ہم نے بخاری کی شرح میں اس واقعہ کا مفصل ذکر کر دیا ہے جس میں ہے کہ ابو سفیان جبکہ دربار قیصر میں بلوائے گئے اور شاہ قیصر روم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کا حال پوچھا تو انہیں کافر اور دشمن رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے باوجود آپ کی خاندانی شرافت کا اقرار کرنا پڑا اور اسی طرح ہر سوال کا صاف اور سچا جواب دینا پڑا یہ واقعہ صلح حدیبیہ کے بعد کا اور فتح مکہ سے پہلے کا ہے اسی باعث قیصر کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) بدعہدی کرتے ہیں؟ ابو سفیان نے کہا نہیں کرتے لیکن اب ایک معاہدہ ہمارا ان سے ہوا ہے نہیں معلوم اس میں وہ کیا کریں؟ یہاں صرف یہ مقصد ہے کہ ان تمام باتوں کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک پیش کیا جاتا ہے جس میں بسم اللہ کے بعد یہ لکھا ہوتا ہے کہ یہ خط محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے جو اللہ کے رسول ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہرقل کی طرف جو روم کا شاہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ہو اسے جو ہدایت کا تابعدار ہو اس کے بعد اسلام قبول کر سلامت رہے گا ، اسلام قبول کر اللہ تعالیٰ تجھے دوہرا اجر دے گا اور اگر تو نے منہ موڑا تو تمام رئیسوں کے گناہوں کا بوجھ تجھ پر پڑے گا پھر یہی آیت لکھی تھی ، امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس سورت یعنی سورۃ آل عمران کو شروع سے لے کر اننی سے کچھ اوپر تک آیتیں وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ، امام زہری فرماتے ہیں سب سے پہلے جزیہ انہی لوگوں نے ادا کیا ہے اور اس بات میں بھی مطلقاً اختلاف نہیں ہے کہ آیت جزیہ فتح مکہ کے بعد اتری ہے پس یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب یہ آیت فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی ہے تو پھر فتح سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں ہرقل کو یہ آیت کیسے لکھی؟ اس کے جواب کئی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ ممکن ہے یہ آیت دو مرتبہ اتری ہو اول حدیبیہ سے پہلے اور فتح مکہ کے بعد ، دوسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے شروع سورت سے لے کر اس آیت تک وفد نجران کے بارے میں اتری ہو یا یہ آیت اس سے پہلے اتر چکی ہو اس صورت میں ابن اسحاق کا یہ فرمانا کہ اسی کے اوپر کی کچھ آیتیں اسی وفد کے بارے میں اتری ہیں یہ محفوظ نہ ہو کیونکہ ابو سفیان والا واقعہ سراسر اس کے خلاف ہے ، تیسرا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وفد نجران حدیبیہ سے پہلے آیا ہو اور انہوں نے جو کچھ دینا منظور کیا ہو یہ صرف مباہلہ سے بچنے کے لئے بطور مصالحت کے ہو نہ کہ جزیہ دیا ہو اور یہ اتفاق کی بات ہو کہ آیت جزیہ اس واقعہ کے بعد اتری جس سے اس کا اتفاقاً الحاق ہو گیا ۔ جیسے کہ حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بدر سے پہلے غزوے کے مال غنیمت کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور پانچواں حصہ باقی رکھ کر دوسرے حصے لشکر میں تقسیم کر دیئے ، پھر اس کے بعد مال غنیمت کی تقسیم کی آیتیں بھی اسی کے مطابق اتریں اور یہی حکم ہوا ۔ چوتھا جواب یہ ہے کہ احتمال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں جو ہرقل کو بھیجا اس میں یہ بات اسی طرح بطور خود لکھی ہو پھر آنحضرت کے الفاظ ہی میں وحی نازل ہوئی ہو جیسے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پردے کے حکم کے بارے میں اسی طرح آیت اتری ، اور بدوی قیدیوں کے بارے میں انہی کے ہم خیال فرمان باری نازل ہوا اسی طرح منافقوں کا جنازہ پڑھنے کی بابت بھی انہی کی بات قائم رکھی گئی ، چنانچہ مقام ابراہیم کے مصلے بنانے سے متعلق بھی اسی طرح وحی نازل ہوئی اور آیت ( عَسٰى رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰۗىِٕبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰۗىِٕحٰتٍ ثَيِّبٰتٍ وَّاَبْكَارًا ) 66 ۔ التحریم:5 ) بھی انہی کے خیال سے متعلق آیت اتری ، پس یہ آیت بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہی اتری ہو ، یہ بہت ممکن ہے ۔