Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓٮِٕكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا‏ ﴿56﴾
اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! تم ( بھی ) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام ( بھی ) بھیجتے رہا کرو ۔
ان الله و ملىكته يصلون على النبي يايها الذين امنوا صلوا عليه و سلموا تسليما
Indeed, Allah confers blessing upon the Prophet, and His angels [ask Him to do so]. O you who have believed, ask [ Allah to confer] blessing upon him and ask [ Allah to grant him] peace.
Allah Taalaa aur iss kay farishtay iss nabi per rehmat bhejtay hain. Aey eman walon! Tum ( bhi ) inn per durood bhejo aur khoob salam ( bhi ) bhejtay raha kero.
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو ! تم بھی ان پر درود بھیجو ، اور خوب سلام بھیجا کرو ۔
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے ( نبی ) پر ، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو ( ف۱٤٦ )
اللہ اور اس کے ملائکہ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجتے ہیں 106 ، اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو 107
بیشک اللہ اور ا س کے ( سب ) فرشتے نبیِ ( مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں ، اے ایمان والو! تم ( بھی ) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :106 اللہ کی طرف سے اپنے نبی پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ پر بے حد مہربان ہے ، آپ کی تعریف فرماتا ہے ، آپ کے کام میں برکت دیتا ہے ، آپ کا نام بلند کرتا ہے اور آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے ۔ ملائکہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ سے غایت درجے کی محبت رکھتے ہیں اور آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے عطا فرمائے ، آپ کے دین کو سر بلند کرے ، آپ کی شریعت کو فروغ بخشے اور آپ کو مقام محمُود پر پہنچائے ۔ سیاق و سباق پر نگاہ ڈالنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ بات کس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ وقت وہ تھا جب دشمنان اسلام اس دین مبین کے فروغ پر اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کیچڑ اچھال کر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اخلاقی اثر کو ختم کر دیں گے جس کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔ ان حالات میں یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ کفار و مشرکین اور منافقین میرے نبی کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کی جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں ، آخر کار وہ منہ کی کھائیں گے ، اس لیے کہ میں اس پر مہربان ہوں اور ساری کائنات کا نظم و نسق جن فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے وہ سب اس کے حامی اور ثنا خواں ہیں ۔ وہ اس کی مذمت کر کے کیا پا سکتے ہیں جبکہ میں اس کا نام بلند کر رہا ہوں اور میرے فرشتے اس کی تعریفوں کے چرچے کر رہے ہیں ۔ وہ اپنے اوچھے ہتھیاروں سے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں جبکہ میری رحمتیں اور برکتیں اس کے ساتھ ہیں اور میرے فرشتے شب و روز دعا کر رہے ہیں کہ رب العالمین ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ اور زیادہ اونچا کر اور اس کے دین کو اور زیادہ فروغ دے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :107 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت راہ راست نصیب ہوئی ہے ، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسان عظیم کا حق ادا کرو ۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھی ، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی ۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے ، اس شخص نے تمہیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو ۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے ، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا ۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے ، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی ۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیر مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو ، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہو جاؤ ، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو ، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے رب دوجہاں ! جس طرح تیرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں ، تو بھی ان پر بے حد و بے حساب رحمت فرما ، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ۔ ایک صَلُّوْا عَلَیْہِ ۔ دوسرے سَلِّمُوْا تَسْلِیْماً صلوٰۃ کا لفظ جب عَلیٰ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہوتے ہیں ۔ ایک ، کسی پر مائل ہونا ، اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہونا اور اس پر جھکنا ۔ دوسرے ، کسی کی تعریف کرنا ۔ تیسرے ، کسی کے حق میں دعا کرنا ۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے گا تو ظاہر ہے کہ تیسرے میں معنی میں نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اللہ کا کسی اور سے دعا کرنا قطعاً ناقابل تصور ہے ۔ اس لیے لامحالہ وہ صرف پہلے دو معنوں میں ہو گا ۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا ، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان ، تو وہ تینوں معنوں میں ہو گا ۔ اس میں محبت کا مفہوم بھی ہو گا ۔ مدح و ثنا کا مفہوم بھی اور دعائے رحمت کا مفہوم بھی ۔ لہٰذا اہل ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں صَلُّوْ عَلَیْہِ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہو جاؤ ، ان کی مدح و ثنا کرو ، اور ان کے لیے دعا کرو ۔ سَلَام کا لفظ بھی دو معنی رکھتا ہے ۔ ایک ، ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا ، جس کے لیے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں ۔ دوسرے صلح اور عدم مخالفت ۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سَلِّمُوْا تِسْلِیْماً کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دعا کرو ۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دل و جان سے ان کا سا تھ دو ، ان کی مخالفت سے پرہیز کرو ، اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو ۔ یہ حکم جب نازل ہوا تو متعدد صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، سلام کا طریقہ تو آپ ہمیں بتا چکے ہیں ( یعنی نماز میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃاللہ و برکاتۃٗ اور ملاقات کے وقت السلام علیک یا رسول اللہ کہنا ) مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کو مختلف مواقع پر جو درود سکھائے ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : کعب بن عجُرہ : اللّٰہم صل علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما صلیت علٰی ابراہم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید و بارک علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی اٰل ابراہیم انک حمیدٌ مجید یہ درود تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت کعب بن عجرہ سے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، امام احمد ، ابن ابی شیبہ ، عبدالرزاق ، ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے روایت کیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ : ان سے بھی بہت خفیف فرق کے ساتھ وہی درود مروی ہے جو اوپر نقل ہوا ہے ( ابن جریر ) ابو حمید ساعدی : اللہم صلی علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبارک علی محمد وازواجہ و ذریتہ کما بارکت علی ال ابراہیم انک حمیدٌ مجید ( مالک ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ، ، نسائی ، احمد ، ابن حبان ، حاکم ) ابُو مسعود بدری: اللّٰھُمّ صَلیّ علٰی مُحَمّدٍ وَ علیٰ اٰل محَمّدٍ کَمَا صَلّیتَ علیٰ اِبراھیمَ وَبارک عَلیٰ محمدٍ و علیٰ اٰل محَمّدٍ کما بارکت علیٰ ابراہیم فی العالمین انّکَ حمیدٌ مَّجید ( مالک ، مسلم ، ابوداود ، ترمذی ، نَسائی ، احمد ، ابن جریر ، ابن حبان ، حاکم ) ابو سعیدخُدری : اللہم صل علی محمد عبدک و رسولک کما صلیت علی ابراہیم و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابرھیم ( احمد بخاری نسائی ، ابن ماجہ ) بریدۃ الخزاعی: اللھم اجعل صلوتک و رحمتک و برکاتک علی محمد و علی ال محمد کام جعلتھا علی ابراہیم انک حمید مجید ( احمد ، عبد بن حمید ، ابن مردویہ ) ابو ہریرہ : اللہم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک علی محمد و علی ال محمد کما صلیت و بارکت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم فی العالمین انک حمیدٌ مجید ( نسائی ) طلحہ: اللہم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم انک حمیدٌ مجید ( ابن جریر ) یہ تمام درود الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں متفق ہیں ۔ ان کے اندر چند اہم نکات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے : اوّلاً ، ان سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا ، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج ۔ نادان لوگ جنہیں معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی ، اللہ تعالی تو ہم سے فرما رہا ہے کہ تم میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو ، مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تو درود بھیج ۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ تم مجھ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے ‘ اس لیے اللہ ہی سے دعا کر و کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے ۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراتب بلند نہیں کر سکتے ۔ اللہ ہی بلند کر سکتا ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے ۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع ذکر کے لیے آپ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی ۔ حتیٰ کہ محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہو سکتی ہے ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف کر سکتا ہے ۔ اعاذنا اللہ من ذالک ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے آپ پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے ۔ جو شخص اللہم صل علی محمد کہتا ہے وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کر تا ہے کہ خدا یا ، تیرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا بس میں نہیں ہے تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے ۔ ثانیاً: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کرم نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دعا کے لیے مخصوص فرما لیں ، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور ازواج اور ذریت کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شامل کر لیا ۔ ازواج اور ذریت کے معنی تو ظاہر ہیں ۔ رہا آل کا لفظ ، تو وہ محض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آ جاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہوں اور آپ کے طریقہ پر چلیں ۔ عربی لغت کی رو سے آل اور اہل میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی آل وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی ، مددگار اور متبع ہوں ، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور کسی شخص کے اہل وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں جو اس کے رشتہ دار ہوں ، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبع ہوں یا نہ ہوں ۔ قرآن مجید میں ۱٤ مقامات پر آل فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ آیت ٤۹ ۔ ۵۰ ۔ آل عمران ، ۱۱ ۔ الاعراف ، ۱۳۰ ۔ المومن ، ٤٦ ) پس آل محمد سے ہر وہ شخص خارج ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ ہو ، خواہ وہ خاندان رسالت ہی کا ایک فرد ہو ، اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتا ہو ، خواہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا ہو ۔ البتہ خاندان رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو آپ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپ کے پیرو بھی ہیں ۔ ثالثاً ہر درود جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپ پر ویسی ہی مہربانی فرمائی جائے جیسی ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر فرمائی گئی ہے ۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے ۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں ۔ مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی ۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے ( والعلم عنداللہ ) کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا ، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذ ہدایت مانتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشوائی پر متفق ہیں ، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی ۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے تمام انبیاء کے پیروؤں کا مرجع بنایا ہے اسی طرح مجھے بھی بنا دے ۔ اور کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو ، میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے ۔ یہ امر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا سنت اسلام ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور خصوصاً نماز میں اس کا پڑھنا مسنون ہے ، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے ۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے ۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں آخری مرتبہ جب آدمی تشہد پڑھتا ہے اس میں صلوٰۃ علی النبی پڑھنا فرض ہے ، اگر کوئی شخص نہ پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی ۔ صحابہ میں سے ابن مسعود انصاری ، ابن عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم ، تابعین میں سے شَعبِی ، امام محمد بن کعب قُرظی اور مُقاتِل بن حَیّان ، اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا ، اور آخر میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کر لیا تھا ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے ۔ یہ کلمۂ شہادت کی طرح ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اللہ کی اِلہٰیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کر لیا اس نے فرض ادا کر دیا ۔ اسی طرح جس نے ایک دفعہ درود پڑھ لیا وہ فریضۂ صلوٰۃ علی النبی سے سبکدوش ہو گیا ۔ اس کے بعد نہ کلمہ پڑھنا فرض ہے نہ درود ۔ ایک اور گروہ نماز میں اس کا پڑھنا مطلقاً واجب قرار دیتا ہے ۔ مگر تشہد کے ساتھ اس کو مقید نہیں کرتا ۔ ایک دوسرے گروہ کے نزدیک ہر دعا میں اس کا پڑھنا واجب ہے ۔ کچھ اور لوگ اس کے قائل ہیں کہ جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے ، درود پڑھنا واجب ہے ۔ اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے ، درود پڑھنا بس ایک دفعہ واجب ہے ۔ یہ اختلافات صرف وجوب کے معاملہ میں ہیں ۔ باقی رہی درود کی فضیلت ، اور اس کا موجب اجر و ثواب ہونا ، اور اس کا ایک بہت بڑی نیکی ہونا ، تو اس پر ساری امت متفق ہے ۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہو سکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہو ۔ درود تو فطری طور پر ہر اس مسلمان کے دل سے نکلے گا جسے یہ احساس ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں ۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہو گی اتنی ہی زیادہ قدر اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کی بھی ہو گی ، اور جتنا آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے گا ۔ پس درحقیقت کثرت درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتا دیتا ہے کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمت ایمان کی کتنی قدر اس کے دل میں ہے ۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من صلّ عَلَیَّ صلوٰۃ لم تزل الملٰئِکۃ تصلّی علیہ ما صلّٰی علیَّ ( احمد و ابن ماجہ ) جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے من صلّٰی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً ( جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے ۔ اولی الناس بی یوم القیامۃ اکثرھم علیّ صلوٰۃ ( ترمذی ) قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا ۔ البخیل الذی ذکرتُ عندہ فلم یصلّ عَلَیَّ ( ترمذی ) بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسروں کے لیے اللّٰھمَّ صلّ علیٰ فلان یا صلّی اللہ علیہ وسلم ۔ ۔ ۔ ۔ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ جائز ہے یا نہیں ، اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ جس میں قاضی عیاض سب سے زیادہ نمایاں ہیں ، اسے مطلقاً جائز رکھتا ہے ۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود غیر انبیاء پر صلوٰۃ کی متعدد مقامات پر تصریح کی ہے ۔ مثلاً اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَات مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ ( البقرہ ۔ ۱۵۷ ) خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْھُمْ وُتُزَکِّھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ ۔ ( التوبہ ۔ ۱۰۳ ) ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہ ( الاحزاب ۔ ٤۳ ) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ غیر انبیاء کو دعا دی ہے ۔ مثلاً ایک صحابی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ صَلّ علیٰ اٰل ابی اوفیٰ ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی بیوی کی درخواست پر فرمایا ، صلی اللہ علیکِ وعلیٰ زوجِکِ جو لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے ان کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ اللھم صلِّ علیھم ۔ حضرت سعد بن عبادہ کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللھم اجعل صَلوٰتک ورحمتک علیٰ اٰل سَعد بن عُبادہ ۔ اور مومن کی روح کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ ملائکہ اس کے حق میں دعا کرتے ہیں صلی اللہ علیک وعلیٰ جسدک ۔ لیکن جمہور امت کے نزدیک ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو درست تھا مگر ہمارے لیے درست نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ اہل اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں اس لیے غیر انبیاء کے لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اسی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ اپنے عامل کو لکھا تھا کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ واعظین نے یہ نیا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ صلوٰۃ علی النبی کی طرح اپنے سر پرستوں اور حامیوں کے لیے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلوٰۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور دوسرے مسلمانوں کے حق میں دعا پر اکتفا کریں ۔ ( روح المعانی ) ۔ اکثریت کا یہ مسلک بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کے لیے بھی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے ۔
صلوۃ و سلام کی فضیلت ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو العالیہ سے مروی ہے کہ اللہ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اپنے فرشتوں کے سامنے آپ کی ثناء و صفت کا بیان کرنا ہے اور فرشتوں کا درود آپ کے لئے دعا کرنا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یعنی برکت کی دعا ۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اللہ کا درود رحمت ہے فرشتوں کا درود استغفار ہے ۔ عطا فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی صلوۃ سبوح قدوس سبقت رحمتی غضبی ہے ۔ مقصود اس آیت شریفہ سے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت عزت و مرتبت لوگوں کی نگاہوں میں جچ جائے وہ جان لیں کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کا ثناء خواں ہے اور اس کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ ملاء اعلیٰ کی یہ خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ تم بھی آپ پر درود و سلام بھیجا کرو تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی کے لوگوں کا اس پر اجتماع ہو جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے پوچھا تھا کہ کیا اللہ تم پر صلوۃ بھیجتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ ان سے کہدو کہ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر رحمت بھیجتا رہتا ہے ۔ اسی کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہی رحمت اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر بھی نازل فرماتا ہے ارشاد ہے ۔ ( هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا 43؀ ) 33- الأحزاب:43 ) ، یعنی اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے رہا کرو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو وہ خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اور کہا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم آپ پر سلام کہنا تو جانتے ہیں درود سکھا دیجئے تو آپ نے فرمایا یوں کہو ( اللھم اجعل صلواتک ورحمتک وبرکاتک علی محمد وعلی ال محمد کما جعلتھا علی ابراہیم وال ابراہیم انک حمید مجید ) اس کا ایک راوی ابو داؤد اعمیٰ جس کا نام نفیع بن حارث ہے وہ متروک ہے ۔ حضرت علی سے لوگوں کو اس دعا کا سکھانا بھی مروی ہے ۔ ( اللھم داحی المدحوات وباری المسموکات وجبار القلوب علی فطر تھا شقیتھا وسعیدھا اجعل شرائف صلواتک ونواحی برکاتک وفضائل الائک علی محمد عبدک و رسولک الفاتح لما اغلق والخاتم لما سبق والمعلن الحق بالحق والدامغ لجیشات الاباطیل کما حمل فاضطلع بامرک بطاعتک مستوفزا فی مرضاتک غیر نکل فی قدم ولا وھن فی عزم واعیا لوحیک حافظا لعھدک ماضیا علی نفاذ أمرک حتی اوریٰ قبسا لقباس الاء اللہ تصل باھلہ اسبابہ بہ ھدیت القلوب بعد خوضات الفتن والاثم وابھج موضحات الاعلام ونائرات الاحکام ومنیرات الاسلام فھو امینک المامون وخازن علمک المخزون وشھیدک یوم الدین وبعیثک نعمتہ و رسولک بالحق رحمتہ اللھم افسح لہ فی عدنک واجزہ مضاعفات الخیر من فضلک لہ مھنات غیر مکدرات من فوز ثوابک المعلول وجزیل عطائک المحلول اللھم أعل علی بناء الناس بناءہ واکرم مثواہ لدیک ونزلہ واثمم لہ نورہ واجزہ من ابطغائک لہ مقبول الشھادۃ مرضی المقالتہ ذا منطق عدل وخطتہ فصل وحجتہ وبرھان عظیم ) مگر اس کی سند ٹھیک نہیں اس کا راوی ابو الحجاج مزی سلامہ کندی نہ تو معروف ہے نہ اس کی علامات حضرت علی سے ثابت ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں جب تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو بہت اچھا درود پڑھا کرو ۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہ درود حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے ۔ لوگوں نے کہا پھر آپ ہی ہمیں کوئی ایسا درود سکھائیے آپ نے فرمایا بہتر ہے یہ پڑھو ( اللھم اجعل صلوتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین وامام المتقین وخاتم النبیین محمد عبدک و رسولک امام الخیر وقائد الخیر و رسول الرحمۃ اللھم ابعثہ مقاما محمودا یغبطہ بہ الاولون ولاخرون ) اس کے بعد التحیات کے بعد کے دونوں درود ہیں ۔ یہ روایت بھی موقف ہے ۔ ابن جریر کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت یونس بن خباب نے اپنے فارس کے ایک خطبے میں اس آیت کی تلاوت کی ۔ پھر لوگوں کے درود کے طریقے کے سوال کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں وارحم محمدا وال محمد کما رحمت ال ابراہیم کو بھی بیان فرمایا ہے ۔ اس سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ کے لئے رحم کی دعا بھی ہے ۔ جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ ایک اعربی نے اپنی دعا میں کہا تھا اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر تو آپ نے اسے فرمایا تو نے بہت ہی زیادہ کشادہ چیز تنگ کر دی ۔ قاضی عیاض نے جمہور مالکیہ سے اس کا عدم جواز نقل کیا ہے ۔ ابو محمد بن ابو زید بھی اس کے جواز کی طرف گئے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تک کوئی شخص مجھ پر درد بھیجتا رہتا ہے تب تک فرشتے بھی اس کے لئے دعا رحم کرتے رہتے ہیں ۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ کمی کرو یا زیادتی کرو ۔ ( ابن ماجہ ) فرماتے ہیں سب سے قریب روز قیامت مجھ سے وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھا کرتا تھا ۔ ( ترمذی ) فرمان ہے مجھ پر جو ایک مرتبہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں بھیجتا ہے اس پر ایک شخص نے کہا پھر میں اپنی دعا کا آدھا وقت درود میں ہی خرچ کروں گا ۔ فرمایا جیسی تیری مرضی اس نے کہا پھر میں دو تہائیاں کرلوں؟ آپ نے فرمایا اگر چاہے اس نے کہا پھر تو میں اپنا سارا وقت اس کے لئے ہی کر دیتا ہوں آپ نے فرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ تجھے دین و دنیا کے غم سے نجات دے دے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا ۔ ( ترمذی ) ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آدھی رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلتے اور فرماتے ہیں ہلا دینے والی آرہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی بھی ہے ۔ حضرت ابی نے ایک مرتبہ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں رات کو کچھ نماز پڑھا کرتا ہوں ۔ تو اس کا تہائی حصہ آپ پر درود پڑھتا رہوں؟ آپ نے فرمایا آدھا حصہ ۔ انہوں نے کہا کہ آدھا کرلوں ؟ فرمایا دو تہائی کہا اچھا میں پورا وقت اسی میں گذاروں گا ۔ آپ نے فرمایا تب تو اللہ تیرے تمام گناہ معاف فرما دے گا ( ترمذی ) اسی روایت کی ایک اور سند میں ہے دو تہائی رات گذرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ کی یاد کرو ۔ لوگو ذکر الٰہی کرو ۔ دیکھو کپکپا دینے والی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ رہی ہے ۔ موت اپنے ساتھ کی کل مصیبتوں اور آفتوں کو لئے ہوئے چلی آ رہی ہے ۔ حضرت ابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ پر بکثرت درود پڑھتا ہوں پس کتنا وقت اس میں گذاروں؟ آپ نے فرمایا جتنا تو چاہے ۔ کہا چوتھائی؟ فرمایا جتنا چاہو اور زیادہ کرو تو اور اچھا ہے ۔ کہا آدھا تو یہی جواب دیا پوچھا دو تہائی تو یہی جواب ملا ۔ کہا تو بس میں سارا ہی وقت اس میں گذاروں گا فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تجھے تیرے تمام ہم و غم سے بچا لے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا ۔ ( ترمذی ) ایک شخص نے آپ سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اپنی تمام تر صلوۃ آپ ہی پر کر دوں تو؟ آپ نے فرمایا دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد پورے ہو جائیں گے ( مسند احمد ) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف فرماتے ہیں آپ ایک مرتبہ گھر سے نکلے ۔ میں ساتھ ہو لیا آپ کھجوروں کے ایک باغ میں گئے وہاں جا کر سجدے میں گر گئے اور اتنا لمبا سجدہ کیا ، اس قدر دیر لگائی کہ مجھے تو یہ کھٹکا گذرا کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کر گئی ہو ۔ قریب جا کر غور سے دیکھنے لگا اتنے میں آپ نے سر اٹھایا مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟ تو میں نے اپنی حالت ظاہر کی ۔ فرمایا بات یہ تھی کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمایا تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ جناب باری عزاسمہ فرماتا ہے جو تجھ پر درود بھیجے گا میں بھی اس پر درود بھیجوں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں بھی اس پر سلام بھیجوں گا ۔ ( مسند احمد بن حنبل ) اور روایت میں ہے کہ یہ سجدہ اس امر پر اللہ کے شکریے کا تھا ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام کے لئے نکلے کوئی نہ تھا جو آپ کے ساتھ جاتا تو حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم عنہ جلدی سے پیچھے پیچھے گئے ۔ دیکھا کہ آپ سجدے میں ہیں ، دور ہٹ کر کھڑے ہوگئے ۔ آپ نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھ کر فرمایا تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ مجھے سجدے میں دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے ۔ سنو میرے پاس جبرائیل آئے اور فرمایا آپ کی امت میں سے جو ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے گا ۔ اللہ اس پر دس رحمتیں اتارے گا اور اس کے دس درجے بلند کرے گا ۔ ( طبرانی ) ایک مرتبہ آپ اپنے صحابہ کے پاس آئے ۔ چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی ۔ صحابہ نے سبب دریافت کیا تو فرمایا ایک فرشتے نے آ کر مجھے یہ بشارت دی کہ میرا امتی جب مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں اس پر اتریں گی ۔ اسی طرح ایک سلام کے بدلے دس سلام ( نسائی ) اور روایت میں ہے کہ ایک درود کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی ، دس گناہ معاف ہوں گے ، دس درجے بڑھیں گے اور اسی کے مثل اس پر لوٹایا جائے گا ( مسند ) جو شخص مجھ پر ایک درود بھیجے گا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا ( مسلم وغیرہ ) فرماتے ہیں مجھ پر درود بھیجا کرو وہ تمہارے لئے زکوٰۃ ہے اور میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو وہ جنت میں ایک اعلیٰ درجہ ہے جو ایک شخص کو ہی ملے گا کیا عجب کہ وہ میں ہی ہوں ( احمد ) حضرت عبد اللہ بن عمرو کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وسلم پر جو درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر درود بھیجتے ہیں ۔ اب جو چاہے کم کرے اور جو چاہے اس میں زیادتی کرے سنو ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ایسے کہ گویا کوئی کسی کو رخصت کر رہا ہو ۔ تین بار فرمایا کہ میں امی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ مجھے نہایت کھلا بہت جامع اور ختم کر دینے والا کلام دیا گیا ہے ۔ مجھے جہنم کے داروغوں کی عرش کے اٹھانے والوں کی گنتی بتا دی گئی ہے ۔ مجھ پر خاص عنایت کی گئی ہے اور مجھے اور میری امت کو عافیت عطا فرمائی گئی ہے ۔ جب تک میں تم میں موجود ہوں سنتے اور مانتے رہو ۔ جب مجھے میرا رب لے جائے تو تم کتاب اللہ کو مضبوط تھامے رہنا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھنا ۔ ( مسند احمد ) فرماتے ہیں جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اسے چاہئے کہ مجھ پر درود بھیجے ۔ ایک مرتبہ کے درود بھیجنے سے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ ( ابوداؤد طیالسی ) ایک درود دس رحمتیں دلواتا ہے اور دس گناہ معاف کراتا ہے ( مسند ) بخیل ہے وہ جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا ۔ ( ترمذی ) اور روایت میں ہے ایسا شخص سب سے بڑا بخیل ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے انسان کو یہ بخل کافی ہے کہ میرا نام سن کر درود نہ پڑھے ۔ فرماتے ہیں وہ شخص برباد ہوا جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا ۔ وہ برباد ہوا جس کی زندگی میں رمضان آیا اور نکل جانے تک اس کے گناہ معاف نہ ہوئے ۔ وہ بھی برباد ہوا جس نے اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کے زمانے کو پا لیا پھر بھی انہوں نے اسے جنت میں نہ پہنچایا ۔ ( ترمذی ) یہ حدیثیں دلیل ہیں اس امر پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب ہے ۔ علماء کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے ۔ جیسے طحاوی حلیمی وغیرہ ۔ ابن ماجہ میں ہے جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا اس نے جنت کی راہ سے خطا کی ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن پہلی احادیث سے اس کی پوری تقویت ہو جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں مجلس میں ایک دفعہ تو واجب ہے پھر مستحب ہے ۔ چنانچہ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کے ذکر اور درود کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر وبال ہو جائے گی ۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے چاہے معاف کر دے اور روایت میں ذکر اللہ کا ذکر نہیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ گو وہ جنت میں جائیں لیکن محرومی ثواب کے باعث انہیں سخت افسوس رہے گا ۔ بعض کا قول ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ آپ پر درود واجب ہے پھر مستحب ہے تاکہ آیت کی تعمیل ہو جائے ۔ قاضی عیاض نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے وجوب کو بیان فرما کر اسی قول کی تائید کی ہے ۔ لیکن طبری فرماتے ہیں کہ آیت سے تو استحاب ہی ثابت ہوتا ہے اور اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا مطلب بھی یہی ہو کہ ایک مرتبہ واجب پھر مستحب جیسے آپ کی نبوت کی گواہی ۔ لیکن میں کہتا ہوں بہت سے ایسے اوقات ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا ہمیں حکم ملا ہے لیکن بعض وقت واجب ہے اور بعض جگہ واجب نہیں ۔ چنانچہ ( 1 ) اذان سن کر ۔ دیکھئے مسند کی حدیث میں ہے جب تم اذان سنو تو جو موذن کہہ رہا ہو تم بھی کہو پھر مجھ پر درود بھیجو ایک کے بدلے دس درود اللہ تم پر بھیجے گا پھر میرے لئے وسیلہ مانگو جو جنت کی ایک منزل ہے اور ایک ہی بندہ اس کا مستحق ہے مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں سنو جو میرے لئے وسیلہ کی دعا کرتا ہے اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے ۔ پہلے درود کے زکوٰۃ ہونے کی حدیث میں بھی اس کا بیان گذر چکا ہے ۔ فرمان ہے کہ جو شخص درود بھیجے اور کہے اللھم انزلہ المقعد المقرب عندک یوم القیامتہ اس کے لئے میری شفاعت قیامت کے دن واجب ہو جائے گی ۔ ( مسند ) ابن عباس سے یہ دعا منقول ہے ( 2 ) مسجد میں جانے اور مسجد سے نکلنے کے وقت ۔ چنانچہ مسند میں ہے ۔ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جاتے تو درود و سلام پڑھ کر اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود و سلام کے بعد اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک پڑھتے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کافرمان ہے جب مسجدوں میں جاؤ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کرو ۔ ( 3 ) نماز کے آخری قعدہ میں التحیات کا دورد ۔ اس کی بحث پہلی گذر چکی ۔ ہاں اول تشہد میں اسے کسی نے واجب نہیں کہا ۔ البتہ مستحب ہونے کا ایک قول شافعی کا ہے ۔ گو دوسرا قول اس کے خلاف بھی انہی سے مروی ہے ۔ ( 4 ) جنازے کی نماز میں آپ پر درود پڑھنا ۔ چنانچہ سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ پڑھے ۔ دوسری میں درود پڑھ ۔ تیسری میں میت کے لئے دعا کرے چوتھی میں اللھم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ الخ ، پڑھے ۔ ایک صحابی کا قول ہے کہ مسنون نماز جنازہ یوں ہے کہ امام تکبیر کہہ کر آہستہ سلام پھیر دے ۔ ( نسائی ) ( 5 ) عید کی نماز میں ۔ حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو موسیٰ اور حضرت حذیفہ کے پاس آ کر ولید بن عقبہ کہتا ہے عید کا دن ہے بتلاؤ تکبیروں کی کیا کفیت ہے؟ عبد اللہ نے فرمایا تکبیر تحریمہ کہہ کر اللہ کی حمد کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دود بھیج دعا مانگ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر پھر قرأت کر پھر تکبیر کہہ کر رکوع کر پھر کھڑا ہو کر پڑھ اور اپنے رب کی حمد بیان کر اور حضور پر صلوۃ پڑھ اور دعا کر اور تکبیر کہہ اور اسی طرح کر پھر رکوع میں جا ۔ حضرت حذیفہ اور حضرت ابو موسیٰ نے بھی اس کی تصدیق کی ۔ ( 6 ) دعا کے خاتمے پر ۔ ترمذی میں حضرت عمر کا قول ہے کہ دعا آسمان و زمین میں معلق رہتی ہے یہاں تک کہ تو درود پڑھے تب چڑھتی ہے ۔ ایک روایت مرفوع بھی اسی طرح کی آئی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ دعا کے اول میں ، درمیان میں اور آخر میں درود پڑھ لیا کرو ۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث میں ہے کہ مجھے سوار کے پیالے کی طرح نہ کر لو کہ جب وہ اپنی تمام ضروری چیزیں لے لیتا ہے تو پانی کا کٹورہ بھی بھر لیتا ہے اگر وضو کی ضرورت پڑی تو وضو کر لیا ، پیاس لگی تو پانی پی لیا ورنہ پانی بہاد دیا ۔ دعا کی ابتداء میں دعا کے درمیان میں اور دعا کے آخر میں مجھ پر درود پڑھا کرو ۔ خصوصاً دعائے قنوت میں درود کی زیادہ تاکید ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں وتروں میں پڑھا کرتا ہوں ۔ اللھم اھدنی فیمن ھدیت وعافنی فیمن عافیت وتولنیفیمن تولیت وبارک لی فیما اعطیت وقنی شر ماقضیت فانک تقضی ولا یقضی علیک انہ لا یذل من والیت ولا یعز من عادیت تبارکت ربنا وتعالیت ( اہل السنن ) نسائی کی روایت میں آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ وصل اللہ علی النبی ( 7 ) جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں ۔ مسند احمد میں ہے سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے ، اسی میں قبض کئے گئے ، اسی میں نفحہ ہے ، اسی میں بیہوشی ہے ۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو ۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا آپ تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ پر کیس پیش کئے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا ۔ ابو داؤد نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو پوچھا گیا موت کے بعد بھی؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس میں انتقطاع ہے ۔ عبادہ بن نسی نے حضرت ابو الدرداء کو پایا نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بیہقی میں بھی حدیث ہے کہ جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر بکثرت درود بھیجو لیکن وہ بھی ضعیف ہے ۔ ایک روایت میں ہے اس کا جسم زمین نہیں کھاتی جس سے روح القدس نے کلام کیا ہو ۔ لیکن یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں بھی جمعہ کے دن اور رات میں درود کی کثرت کا حکم ہے ۔ ( 8 ) اسی طرح خطیب پر بھی دونوں خطبوں میں درود و واجب ہے اس کے بغیر صحیح نہ ہوں گے اس لئے کہ یہ عبادت ہے اور اس میں ذکر اللہ واجب ہے پس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی واجب ہو گا ۔ جیسے اذان و نماز شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے ( 9 ) آپ کی قبر شریف کی زیارت کے وقت ابو داؤد میں ہے جو مسلمان مجھ پر سلام پڑھتا ہے ۔ اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں ۔ ابو داؤد میں ہے اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ میری قبر پر عرس میلہ نہ لگاؤ ۔ ہاں مجھ پر درود پڑھو گو تم کہیں بھی ہولیکن تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے ۔ قاضی اسماعیل بن اسحاق اپنی کتاب فضل الصلوۃ میں ایک روایت لائے ہیں کہ ایک شخص ہر صبح روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا اور درود سلام پڑھتا تھا ۔ ایک دن اس سے حضرت علی بن حسین بن علی نے کہا تم روز ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا مجھے بہت مرغوب ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں میں نے اپنے باپ سے انہوں نے میرے دادا سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ میری قبر کو عید نہ بناؤ ۔ نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ جہاں کہیں تم ہو وہیں سے مجھ پر درود و سلام بھیجو وہ مجھے پہنچ جاتے ہیں ۔ اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام مذکور نہیں اور سند سے یہ روایت مرسل مروی ہے ۔ حسن بن حسن بن علی سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ کی قبر کے پاس کچھ لوگوں کو دیکھ کر انہیں یہ حدیث سنائی کہ آپ کی قبر پر میلہ لگانے سے آپ نے روک دیا ہے ۔ ممکن ہے ان کی کسی بے ادبی کی وجہ سے یہ حدیث آپ کو سنانے کی ضرورت پڑی ہو مثلاً وہ بلند آواز سے بول رہے ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر پے درپے آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ تو اور جو شخص اندلس میں ہے جہاں کہیں تم ہو وہیں سے سلام بھیجو تمہارے سلام مجھے پہنچا دیئے جاتے ہیں ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ یہ خاص راز ہے اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں بھی نہ بتاتا ۔ سنو میرے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جب میرا ذکر کسی مسلمان کے سامنے کیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں اللہ تجھے بخشے ۔ اور خود اللہ اور اس کے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے ۔ مسند احمد میں ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے رہتے ہیں میری امت کے سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔ نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو میری قبر کے پاس سے مجھ پر سلام پڑھتا ہے اسے میں سنتا ہوں اور جو دور سے سلام بھیجتا ہے اسے میں پہنچایا جاتا ہوں ۔ یہ حدیث سنداً صحیح نہیں محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے ۔ ( ١٠ ) ہمارے ساتھیوں کا قول ہے کہ احرام والا جب لبیک پکارے تو اسے بھی درود پڑھنآ چاہئے ۔ دارقطنی وغیرہ میں قاسم بن محمد بن اببوکر صدیق کا فرمان مروی ہے کہ لوگوں کو اس بات کا حکم کیا جاتا تھا ۔ صحیح سند سے حضرت فاروق اعظم کا قول مروی ہے کہ جب تم مکہ پہنچو تو سات مرتبہ طواف کرو ، مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرو ۔ پھر صفا پر چڑھو اتنا کہ وہاں سے بیت اللہ نظر آئے وہاں کھڑے رہ کر سات تکبیریں کہو ان کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء بیان کرو اور درود پڑھو ۔ اور اپنے لئے دعا کرو پھر مروہ پر بھی اسی طرح کرو ۔ ( ١١ ) ہمارے ساتھیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ذبح کے وقت بھی اللہ کے نام کے ساتھ درود پڑھنا چاہئے ۔ آیت ورفعنا لک ذکرک سے انہوں نے تائید چاہی ہے کیونکہ اس کی تفسیر میں ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر کیا جائے وہیں آپ کا نام بھی لیا جائے گا جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں یہاں صرف ذکر اللہ کافی ہے ۔ جیسے کھانے کے وقت اور جماع کے وقت وغیرہ وغیرہ کہ ان اوقات میں درود کا پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہوا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر بھی صلوٰۃ و سلام بھیجو وہ بھی میری طرح اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں لیکن اس کی سند میں دو ضعیف راوی ہیں عمر بن ہارون اور ان کے استاد ۔ کان کی سنسناہٹ کے وقت بھی درود پڑھنآ ایک حدیث میں ہے ۔ اگر اس کی اسناد صحیح ثابت ہو جائے تو صحیح ابن خزیمہ میں ہے جب تم میں سے کسی کے کان میں سرسراہٹ ہو تو مجھے ذکر کرکے درود پڑھے اور کہے کہ جس نے مجھے بھلائی سے یاد کیا اسے اللہ بھی یاد کرے اس کی سند غریب ہے اور اس کے ثبوت میں نظر ہے ۔ مسئلہ: اہل کتاب اس بات کو مستحب جانتے ہیں کہ کاتب جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھے صلی اللہ علیہ وسلم لکھے ۔ ایک حدیث میں ہے جو شخص کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھے اس کے درود کا ثواب اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ کتاب رہے لیکن کئی وجہ سے یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ امام ذہبی کے استاد تو اسے موضوع کہتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت سے طریق سے مروی ہے لیکن ایک سند بھی صحیح نہیں ۔ امام خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب آداب الرادی والسامع میں لکھتے ہیں میں نے امام احمد کی دستی لکھی ہوئی کتاب میں بہت جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیکھا جہاں درود لکھا ہوا نہ تھا آپ زبانی درود پڑھ لیا کرتے تھے ۔ فصل: نبیوں کے سوا غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنا اگر تبعاً ہو تو بیشک جائز ہے ۔ جیسے حدیث میں ہے اللھم صل علی محمد والہ وازواجہ و ذریتہ ۔ ہاں صرف غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنے میں اختلاف ہے ۔ بعض تو اسے جائز بتاتے ہیں اور دلیل میں آیت ھوالذی یصلی علیکم الخ اور اولئک علیھم صلوات اور وصل علیھم پیش کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قوم کا صدقہ آتا تو آپ فرماتے اللھم صل علیھم چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں جب میرے والد آپ کے پاس اپنا صدقے کا مال لائے تو آپ نے فرمایا اللھم صل علی ال ابی اوفی بخاری و مسلم ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے خاوند پر صلوت بھیجئے تو آپ نے فرمایا صلی اللہ علیہ و علی زوجک لیکن جمہور علماء اس کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء کے سوا اوروں پر خاصتہ صلوٰۃ بھیجنا ممنوع ہے ۔ اس لئے کہ اس لفظ کا استعمال انبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام کیلئے اس قدر بکثرت ہوگیا ہے کہ سنتے ہی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ نام کسی نبی کا ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ غیر نبی کیلئے یہ الفاظ نہ کہے جائیں ۔ مثلاً ابو بکر صل اللہ علیہ یا علی صلی اللہ علیہ نہ کہا جائے گو معنی اس میں کوئی قباحت نہیں جیسے محمد عزوجل نہیں کہا جاتا ۔ حالانکہ ذی عزت اور ذی مرتبہ آپ بھی ہیں اس لئے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے مشہور ہوچکے ہیں اور کتاب و سنت میں صلوٰۃ کا جو استعمال غیر انبیاء کیلئے ہوا ہے وہ بطور دعا کے ہے ۔ اسی وجہ سے آل ابی اوفی کو اس کے بعد کسی نے ان الفاظ سے یاد نہیں کیا نہ حضرت جابر اور ان کی بیوی کو ۔ یہی مسلک ہمیں بھی اچھا لگتا ہے ، واللہ اعلم ۔ بعض ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ غیر انبیاء کیلئے یہ الفاظ صلوٰۃ استعمال کرنا بددینوں کا شیوہ ہوگیا ہے ۔ وہ اپنے بزرگوں کے حق میں یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں پاس ان کی اقتدا ہمیں نہ کرنی چاہئے ۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ مخالفت کس درجے کی ہے حرمت کے طور پر یا کراہیت کے طور پر یا خلاف اولیٰ ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے ۔ اس لئے کہ بدعتیوں کا طریقہ ہے جس پر ہمیں کاربند ہونا ٹھیک نہیں اور مکروہ وہی ہوتا ہے جس میں نہی مقصود ہو ۔ زیادہ تر اعتبار اس میں اسی پر ہے کہ صلوٰۃ کا لفظ سلف میں نبیوں پر ہی بولا جاتا رہا جیسے کہ عزوجل کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کیلئے بولا جاتا رہا ۔ اب رہا سلام سو اس کے بارے میں شیخ ابو محمد جوینی فرماتے ہیں کہ یہ بھی صلوٰۃ کے معنی میں ہے پس غائب پر اس کا استعمال نہ کیا جائے اور جو نبی نہ وہ اس کیلئے خاصتہً اسے بھی نہ بولا جائے ۔ پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے ۔ زندوں اور مردوں کا یہی حکم ہے ۔ ہاں جو سامنے موجود ہو اس سے خطاب کرکے سلام علیک یا سلام علیکم یا السلام علیک یا علیکم کہنا جائز ہے اور اس پر اجماع ہے ۔ یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عموماً مصنفین کے قلم سے علی علیہ السلام نکلتا ہے یا علی کرم اللہ وجہہ نکلتا ہے گو معنی اس میں کوئی حرج نہ ہو لیکن اس سے اور صحابہ کی جناب میں ایک طرح کی سوء ادبی پائی جاتی ہے ۔ ہمیں سب صحابہ کے ساتھ حسن عقیدت رکھنی چاہئے ۔ یہ الفاظ تعظیم و تکریم کے ہیں اس لئے حضرت علی سے زیادہ مستحق ان کے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ نہ بھیجنی چاہئے ۔ ہاں مسلمان مردوں عورتوں کیلئے دعا مغفرت کرنی چاہئے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ بعض لوگ آخرت کے اعمال سے دنیا کے جمع کرنے کی فکر میں ہیں اور بعض مولوی واعظ اپنے خلیفوں اور امیروں کیلئے صلوٰۃ کے ہی الفاظ بولتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تھے ۔ جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو انہیں کہہ دینا کہ صلوٰۃ صرف نبیوں کیلئے ہیں اور عام مسلمانوں کیلئے اس کے سوا جو چاہیں دعا کریں ۔ حضرت کعب کہتے ہیں ہر صبح ستر ہزار فرشتے اتر کر قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیتے ہیں اور اپنے پر سمیٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا رحمت کرتے رہتے ہیں اور ستر ہزار رات کو آتے ہیں یہاں تک کہ قیامت کے دن جب آپ کی قبر مبارک شق ہوگی تو آپ کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے ( فرعو ) امام نووی فرماتے ہیں کہ حضور پر صلوٰۃ و سلام ایک ساتھ بھیجنے چاہئیں صرف صلی اللہ علیہ وسلم یا صرف علیہ السلام نہ کہے ۔ اس آیت میں بھی دونوں ہی کا حکم ہے پس اولیٰ یہ ہے کہ یوں کہا جائے صل اللہ علیہ وسلم تسلیما ۔