Surah

Information

Surah # 33 | Verses: 73 | Ruku: 9 | Sajdah: 0 | Chronological # 90 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
يَسۡـــَٔلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُهَا عِنۡدَ اللّٰهِؕ وَمَا يُدۡرِيۡكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوۡنُ قَرِيۡبًا‏ ﴿63﴾
لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ کہہ دیجئے! کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے ، آپ کو کیا خبر بہت ممکن ہے قیامت بالکل ہی قریب ہو ۔
يسلك الناس عن الساعة قل انما علمها عند الله و ما يدريك لعل الساعة تكون قريبا
People ask you concerning the Hour. Say," Knowledge of it is only with Allah . And what may make you perceive? Perhaps the Hour is near."
Log aap say qayamat kay baray mein sawal kertay hain. Aap keh dijiye! kay iss ka ilm to Allah hi ko hai aap ko kiya khabar boht mimkin hai qayamat bilkul hi qareeb ho.
لوگ تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ کہہ دو کہ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے ۔ اور تمہیں کیا پتہ شاید قیامت قریب ہی آگئی ہو ۔
لوگ تم سے قیامت کا پوچھتے ہیں ( ف۱۵۹ ) تم فرماؤ اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے ، اور تم کیا جانو شاید قیامت پاس ہی ہو ( ف۱٦۰ )
لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کی گھڑی کب آئے گی116 کہو ، اس کا علم تو للہ ہی کو ہے ۔ تمہیں کیا خبر ، شاید کہ وہ قریب ہی آ لگی ہو ۔
لوگ آپ سے قیامت کے ( وقت کے ) بارے میں دریافت کرتے ہیں ۔ فرما دیجئے: اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے ، اور آپ کو کس نے آگاہ کیا شاید قیامت قریب ہی آچکی ہو
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :116 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال عموماً کفار و منافقین کیا کرتے تھے ۔ اور اس سے ان کا مقصد علم حاصل کرنا نہ تھا بلکہ وہ دل لگی اور استہزاء کے طور پر یہ بات پوچھا کرتے تھے ۔ دراصل ان کو آخرت کے آنے پر یقین نہ تھا ۔ قیامت کے تصور کو وہ محض ایک خالی خولی دھمکی سمجھتے تھے ۔ وہ قیامت کے آنے کی تاریخ اس لیے دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے آنے سے پہلے وہ اپنے معاملات درست کر لینے کا ارادہ رکھتے ہوں ، بلکہ انکا اصل مطلب یہ ہوتا تھا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم نے تمہیں نیچا دکھانے کے لیے یہ کچھ کیا ہے اور آج تک تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے ہو ، اب ذرا ہمیں بتاؤ تو سہی کہ آخر وہ قیامت کب برپا ہو گی جب ہماری خبر لی جائے گی ۔
قیامت قریب تر سمجھو ۔ لوگ یہ سمجھ کر کہ قیامت کب آئے گی ۔ اس کا علم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے ۔ آپ سے سوال کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے سب کو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی معلوم کروا دیا کہ اس کا مطلق مجھے علم نہیں یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ سورۃ اعراف میں بھی یہ بیان ہے اور اس سورت میں بھی پہلی سورت مکے میں اتری تھی یہ سورت مدینے میں نازل ہوئی ۔ جس سے ظاہر کرا دیا گیا کہ ابتدا سے انتہا تک قیامت کے صحیح وقت کی تعیین آپ کو معلوم نہ تھی ۔ ہاں اتنا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو معلوم کرا دیا تھا کہ قیامت کا وقت ہے قریب ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ Ǻ۝ ) 54- القمر:1 ) اور آیت میں ہے ( اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ Ǻ۝ۚ ) 21- الأنبياء:1 ) اور ( اَتٰٓى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ ۭ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ Ǻ۝ ) 16- النحل:1 ) وغیرہ ، اللہ تعالیٰ نے کافروں کو اپنی رحمت سے دور کردیا ہے ان پر ابدی لعنت فرمائی ہے ۔ دار آخرت میں ان کیلئے آگ جہنم تیار ہے جو بڑی بھڑکنے والی ہے ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے نہ کبھی نکل سکیں نہ چھوٹ سکیں اور وہاں نہ کوئی اپنا فریاد رس پائیں گے نہ کوئی دوست و مددگار جو انہیں چھڑالے یا بچاسکے ، یہ جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے ۔ اس وقت تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم اللہ رسول کے تابعدار ہوتے ۔ میدان قیامت میں بھی ان کی یہی تمنائیں رہیں گی ہاتھ کو چباتے ہوئے کہیں گے کہ کاش ہم قرآن حدیث کے عامل ہوتے ۔ کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس نے تو مجھے قرآن و حدیث سے بہکا دیا فی الواقع شیطان انسان کو ذلیل کرنے والا ہے اور آیت میں ہے ( رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ Ą۝ ) 15- الحجر:2 ) عنقریب کفار آرزو کریں گے کہ کاش کہ وہ مسلمان ہوتے ، اس وقت کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے اپنے سرداروں اور اپنے علماء کی پیروی کی ۔ امراء اور مشائخین کے پیچھے لگے رہے ۔ رسولوں سے اختلاف کیا اور یہ سمجھا کہ ہمارے بڑے راہ راست پر ہیں ۔ ان کے پاس حق ہے آج ثابت ہوا کہ درحقیقت وہ کچھ نہ تھے ۔ انہوں نے تو ہمیں بہکا دیا ، پروردگار تو انہیں دوہرا عذاب کر ۔ ایک تو انکے اپنے کفر کا ایک ہمیں برباد کرنے کا ۔ اور ان پر بدترین لعنت نازل کر ۔ ایک قرأت میں کبیراً کے بدلے کثیراً ہے مطلب دونوں کا یکساں ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی ایسی دعا کی درخواست کی جسے وہ نماز میں پڑھیں تو آپ نے یہ دعا تعلیم فرمائی ( اللھم انی ظلمت نفسی ظلما کثیرا و انہ ولا یغفرالذنوب الا انت فاغفرلی مغفرۃ من عندک وارحمنی انک انت الغفور الرحیم ) یعنی اے اللہ میں نے بہت سے گناہ کئے ہیں ۔ میں مانتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی انہیں معاف نہیں کرسکتا پس تو اپنی خصوصی بخشش سے مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر تو بڑا ہی بخشش کرنے والا اور مہربان ہے ۔ اس حدیث میں بھی ظلما کثیراً اور کبیراً دونوں ہی مروی ہیں ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ دعا میں کثیراً کبیراً دونوں لفظ ملالے ۔ لیکن یہ ٹھیک نہیں بلکہ ٹھیک یہ ہے کہ کبھی کثیراً کہے کبھی کبیراً دونوں لفظوں میں سے جسے چاہے پڑھ سکتا ہے ۔ لیکن دونوں کو جمع نہیں کرسکتا ، واللہ اعلم ۔ حضرت علی کا ایک ساتھی آپ کے مخالفین سے کہہ رہا تھا کہ تم اللہ کے ہاں جاکر یہ کہو گے کہ ( ربنا انا اطعنا ) الخ ۔