Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلِسُلَيۡمٰنَ الرِّيۡحَ غُدُوُّهَا شَهۡرٌ وَّرَوَاحُهَا شَهۡرٌۚ وَ اَسَلۡنَا لَهٗ عَيۡنَ الۡقِطۡرِؕ وَمِنَ الۡجِنِّ مَنۡ يَّعۡمَلُ بَيۡنَ يَدَيۡهِ بِاِذۡنِ رَبِّهِؕ وَمَنۡ يَّزِغۡ مِنۡهُمۡ عَنۡ اَمۡرِنَا نُذِقۡهُ مِنۡ عَذَابِ السَّعِيۡرِ‏ ﴿12﴾
اور ہم نے سلیمان کے لئے ہوا کو مسخر کر دیا کہ صبح کی منزل اس کی مہینہ بھر کی ہوتی تھی اور شام کی منزل بھی اور ہم نے ان کے لئے تانبے کا چشمہ بہا دیا اور اس کے رب کے حکم سے بعض جنات اس کی ماتحتی میں اس کے سامنے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے ہم اسے بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔
و لسليمن الريح غدوها شهر و رواحها شهر و اسلنا له عين القطر و من الجن من يعمل بين يديه باذن ربه و من يزغ منهم عن امرنا نذقه من عذاب السعير
And to Solomon [We subjected] the wind - its morning [journey was that of] a month - and its afternoon [journey was that of] a month, and We made flow for him a spring of [liquid] copper. And among the jinn were those who worked for him by the permission of his Lord. And whoever deviated among them from Our command - We will make him taste of the punishment of the Blaze.
Aur hum ney suleman kay liye hawa ko musakkhar ker diya kay subah ki manzil uss ki maheena bhar ki hoti thi aur shaam ki manzil bhi aur hum ney unn kay liye taanbay ka chashma baha diya. Aur uss kay rab kay hukum say baaz jinnat uss ki ma-tehati mein uss kay samney kaam kertay thay aur inn mein say jo bhi humaray hukum say sirtabi keray hum ussay bharakti hui aag kay azab ka maza chakhayen gay.
اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو تابع بنا دیا تھا ۔ اس کا صبح کا سفر بھی ایک مہینے کی مسافت کا ہوتا تھا ، اور شام کا سفر بھی ایک مہینے کی مسافت کا ( ٥ ) اور ہم نے ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ ( ٦ ) اور جناب میں سے کچھ وہ تھے جو اپنے پروردگار کے حکم سے ان کے آگے کام کرتے تھے ( ٧ ) اور ( ہم نے ان پر یہ بات واضح کردی تھی کہ ) ان میں سے کوئی ہمارے حکم سے ہٹ کر ٹیڑھا راستہ اختیار کرے گا ، اسے ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں گے ۔
اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینے کی راہ ( ف۲۷ ) اور ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا ( ف۲۸ ) اور جنوں میں سے وہ جو اس کے آگے کام کرتے اس کے رب کے حکم سے ( ف۲۹ ) ادر جو ان میں ہمارے حکم سے پھرے ( ف ۳۰ ) ہم اسے بھڑ کتی آگ کا عذاب چکھائیں گے ،
اور سلیمان کے لیے ہم نے ہوا کو مسخر کر دیا ، صبح کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک اور شام کے وقت اس کا چلنا ایک مہینے کی راہ تک 17 ۔ ہم نے اس کے لیے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا 18 اور ایسے جن اس کے تابع کر دیے جو اپنے رب کے حکم سے اس کے آگے کام کرتے تھے 19 ۔ ان میں سے جو ہمارے حکم سے سرتابی کرتا اس کو ہم بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھاتے ۔
اور سلیمان ( علیہ السلام ) کے لئے ( ہم نے ) ہوا کو ( مسخّر کر دیا ) جس کی صبح کی مسافت ایک مہینہ کی ( راہ ) تھی اور اس کی شام کی مسافت ( بھی ) ایک ماہ کی راہ ہوتی ، اور ہم نے اُن کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہا دیا ، اور کچھ جنّات ( ان کے تابع کردیئے ) تھے جو اُن کے رب کے حکم سے اُن کے سامنے کام کرتے تھے ، اور ( فرما دیا تھا کہ ) ان میں سے جو کوئی ہمارے حکم سے پھرے گا ہم اسے دوزخ کی بھڑکتی آگ کا عذاب چکھائیں گے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :17 یہ مضمون بھی سورہ انبیا آیت 81 میں گزر چکا ہے اور اس کی تشریح وہاں کی جا چکی ہے ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم 176 ۔ 177 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :18 بعض قدیم مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ زمین سے ایک چشمہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے پھوٹ نکلا تھا جس میں سے پانی کے بجائے پگھلا ہوا تانبہ بہتا تھا ۔ لیکن آیت کی دوسری تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں تانبے کو پگھلانے اور اس سے طرح طرح کی چیزیں بنانے کا کام بڑے پیمانے پر کیا گیا کہ گویا وہاں تانبے کے چشمے بہ رہے تھے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم ، ص 176 ) سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :19 یہ جن جو سلیمان علیہ السلام کے لیے مسخر کیے گیے تھے ، آیا یہ دہقانی اور کوہستانی انسان تھے یا واقعی وہی جن تھے جو ایک پوشیدہ مخلوق کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں ، اس مسئلے پر بھی سورہ انبیا اور سورہ نحل کی تفسیر میں ہم مفصل بحث کر چکے ہیں ۔
اللہ کی نعمتیں اور سلیمان علیہ السلام ۔ حضرت داؤد علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کو بیان کرکے پھر آپ کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام پر جو نعمتیں نازل فرمائی تھیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ان کیلئے ہوا کو تابع فرمان بنادیا ۔ مہینے بھر کی راہ صبح ہی صبح ہو جاتی اور اتنی ہی مسافت کا سفر شام کو ہو جاتا ۔ مثلاً دمشق سے تخت مع فوج و اسباب کے اڑایا اور تھوڑی دیر میں اصطخر پہنچادیا جو تیز سوار کیلئے بھی مہینے بھر کا سفر تھا ۔ اسی طرح شام کو وہاں سے تخت اڑا اور شام ہی کو کا بل پہنچ گیا ۔ تانبے کو بطور پانی کرکے اللہ تعالیٰ نے اس کے چشمے بہا دیئے تھے کہ جس کام میں جس طرح جس وقت لانا چاہیں تو بلاوقت لے لیا کریں ۔ یہ تانبا انہیں کے وقت سے کام میں آ رہا ہے ۔ سدی کا قول ہے کہ تین دن تک یہ بہتا رہا ۔ جنات کو ان کی ماتحتی میں کردیا جو وہ چاہتے اپنے سامنے ان سے کام لیتے ۔ ان میں سے جو جن احکام سلیمان کی تعمیل سے جی چراتا فوراً آگ سے جلا دیا جاتا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جنات کی تین قسمیں ہیں ایک تو پردار ہے ۔ دوسری قسم سانپ اور کتے ہیں تیسری قسم وہ ہے جو سواریوں پر سوار ہوتے ہیں اترتے ہیں وغیرہ ۔ یہ حدیث بہت غریب ہے ۔ ابن نعم سے روایت ہے کہ جنات کی تین قسمیں ہیں ایک کیلئے تو عذاب ثواب ہے ایک آسمان و زمین میں اڑتے رہتے ہیں ایک سانپ کتے ہیں ۔ انسانوں کی بھی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے عرش تلے سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوائے اور کوئی سایہ نہ ہوگا ۔ اور ایک قسم مثل چوپایوں کے ہے بلکہ ان سے بھی بدتر ۔ اور تیسری قسم انسانی صورت میں شیطانی دل رکھنے والے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں جن ابلیس کی اولاد میں سے ہیں اور انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں دونوں میں مومن بھی ہیں اور کافر بھی ۔ عذاب و ثواب میں دونوں شریک ہیں دونوں کے ایماندار ولی اللہ ہیں اور دونوں کے بے ایمان شیطان ہیں ، محاریب کہتے ہیں بہترین عمارتوں کو گھر کے بہترین حصے کو مجلس کی صدارت کی جگہ کو ۔ بقول مجاہد ان عمارتوں کو جو محلات سے کم درجے کی ہوں ۔ ضحاک فرماتے ہیں مسجدوں کو ۔ قتادہ کہتے ہیں بڑے بڑے محل اور مسجدوں کو ۔ ابن زید کہتے ہیں گھروں کو ۔ تماثیل تصویروں کو کہتے ہیں یہ تانبے کی تھیں ۔ بقول قتادہ وہ مٹی اور شیشے کی تھیں ۔ جواب جمع ہے جابیہ کی ۔ جابیہ اس حوض کو کہتے ہیں جس میں پانی آتا رہتا ہو ۔ یہ مثل تالاب کے تھیں بہت بڑے بڑے لگن تھے تاکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بہت بڑی فوج کیلئے بہت سا کھانا بیک وقت تیار ہوسکے اور ان کے سامنے لایا جاسکے ۔ اور جمی ہوئی دیگیں جو بوجہ اپنی بڑائی کے اور بھاری پن کے ادھر سے ادھر نہیں کی جاسکتی تھیں ۔ ان سے اللہ نے فرما دیا تھا کہ دین و دنیا کی جو نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں ان پر میرا شکر کرو ۔ شکر مصدر ہے بغیر فعل کے یا مفعول لہ ہے اور دونوں تقدیروں پر اس میں دلالت ہے کہ شکر جس طرح قول اور ارادہ سے ہوتا ہے فعل سے بھی ہوتا ہے جیسے شاعر کا قول ہے افادتکم النعماء منی ثلاثہ یدی ولسانی الضمیر المحجیا اس میں بھی شاعر نعمتوں کا شکر تینوں طرح مانتا ہے فعل سے ، زبان سے اور دل سے ۔ حضرت عبدالرحمن سلمی سے مروی ہے کہ نماز بھی شکر ہے اور روزہ بھی شکر ہے اور بھلا عمل جسے تو اللہ کیلئے کرے ، شکر ہے اور سب سے افضل شکر حمد ہے ۔ محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں شکر اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اور نیک عمل ہے ۔ آل داؤد دونوں طرح کا شکر ادا کرتے تھے قولاً بھی اور فعلاً بھی ۔ ثابت بنانی فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی اہل و عیال اولاد اور عورتوں پر اس طرح اوقات کی پابندی کے ساتھ نفل نماز تقسیم کی تھی کہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نماز میں مشغول نظر آتا ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کو سب سے زیادہ پسند حضرت داؤد علیہ السلام کی نماز تھی ۔ آپ آدھی رات سوتے تہائی رات قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو رہتے ۔ اسی طرح سب روزوں سے زیادہ محبوب روزے بھی اللہ تعالیٰ کو آپ ہی کے تھے آپ ایک دن روزے سے رہتے اور ایک دن بےروزہ ایک خوبی آپ میں یہ تھی کہ دشمن سے جہاد کے وقت منہ نہ پھیرتے ۔ ابن ماجہ میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ ماجدہ نے آپ سے فرمایا کہ پیارے بچے رات کو بہت نہ سویا کرو ۔ رات کی زیادہ نیند انسان کو قیامت کے دن فقیر بنا دیتی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں اس موقعہ پر حضرت داؤد علیہ السلام کی ایک مطول حدیث مروی ہے ۔ اسی کتاب میں یہ بھی مروی ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا کہ الہ العالمین تیرا شکر کیسے ادا ہوگا ؟ شکر گزاری خود تیری ایک نعمت ہے جواب ملا داؤد اب تو نے میری شکر گزاری ادا کرلی جبکہ تونے اسے جان لیا کہ کل نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں ۔ پھر ایک واقعے کی خبر دی جاتی ہے کہ بندوں میں سے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں ۔