Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَلَمَّا قَضَيۡنَا عَلَيۡهِ الۡمَوۡتَ مَا دَلَّهُمۡ عَلٰى مَوۡتِهٖۤ اِلَّا دَآ بَّةُ الۡاَرۡضِ تَاۡ كُلُ مِنۡسَاَتَهُ ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الۡجِنُّ اَنۡ لَّوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ الۡغَيۡبَ مَا لَبِثُوۡا فِى الۡعَذَابِ الۡمُهِيۡنِ ؕ‏ ﴿14﴾
پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم بھیج دیا تو ان کی خبر جنات کو کسی نے نہ دی سوائے گھن کے کیڑے کے جو ان کی عصا کو کھا رہا تھا ۔ پس جب ( سلیمان ) گر پڑے اس وقت جنوں نے جان لیا کہ اگر وہ غیب دان ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے ۔
فلما قضينا عليه الموت ما دلهم على موته الا دابة الارض تاكل منساته فلما خر تبينت الجن ان لو كانوا يعلمون الغيب ما لبثوا في العذاب المهين
And when We decreed for Solomon death, nothing indicated to the jinn his death except a creature of the earth eating his staff. But when he fell, it became clear to the jinn that if they had known the unseen, they would not have remained in humiliating punishment.
Phir jab hum ney unn per maut ka hukum bhej diya to unn ki khabar jinnat ko kissi ney na di siwaye ghunn kay keeray kay jo unn kay asa ko kha raha tha. Pus jab ( suleman ) gir paray uss waqt jinno ney jaan liya kay agar woh ghaib daan hotay to iss zillat kay azab mein mubtila na rehtay.
پھر جب ہم نے سلیمان کی موت کا فیصلہ کیا تو ان جنات کو ان کی موت کا پتہ کسی اور نے نہیں بلکہ زمین کے کیڑے نے دیا جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا ۔ ( ٩ ) چنانچہ جب وہ گر پڑے تو جنات کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب کا علم جانتے ہوتے تو اس ذلت والی تکلیف میں مبتلا نہ رہتے ۔
پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا ( ف۳٦ ) جنوں کو اس کی موت نہ بتائی مگر زمین کی دیمک نے کہ اس کا عصا کھاتی تھی ، پھر جب سلیمان زمین پر آیا جِنوں کی حقیقت کھل گئی ( ف۳۷ ) اگر غیب جانتے ہوتے ( ف۳۸ ) تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے ( ف۳۹ )
پھر جب سلیمان ( علیہ السلام ) پر ہم نے موت کا فیصلہ نافذ کیا تو جنوں کو اس کی موت کا پتہ دینے والی کوئی چیز اس گھن کو سوا نہ تھی جو اس کے عصا کو کھا رہا تھا ۔ اس طرح جب سلیمان ( علیہ السلام ) گر پڑا تو جنوں پر یہ بات کھل گئی 23 کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے 24 ۔
پھر جب ہم نے سلیمان ( علیہ السلام ) پر موت کا حکم صادر فرما دیا تو اُن ( جنّات ) کو ان کی موت پر کسی نے آگاہی نہ کی سوائے زمین کی دیمک کے جو اُن کے عصا کو کھاتی رہی ، پھر جب آپ کا جسم زمین پر آگیا تو جنّات پر ظاہر ہوگیا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلّت انگیز عذاب میں نہ پڑے رہتے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :23 اصل لفظ ہیں تَبَیَّنَتِ الجِنُّ ۔ ۔ اس فقرے کا ایک ترجمہ تو وہ ہے جو ہم نے اوپر متن میں کیا ہے ۔ اور دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جنوں کا حال کھل گیا یا منکشف ہو گیا ۔ پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ خود جنوں کو پتہ چل گیا کہ غیب دانی کے متعلق ان کا زعم غلط ہے ۔ دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ عام لوگ جو جنوں کو غیب داں سمجھتے تھے ان پر یہ راز فاش ہو گیا کہ وہ علم غیب نہیں رکھتے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :24 موجودہ زمانے کے بعض مفسرین نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ حضرت سلیمان کا بیٹا رَجُبعام چونکہ نالائق اور عیش پسند تھا اور خوشامدی مصاحبوں میں گھرا ہوا تھا ، اس لیے اپنے جلیل القدر والد کی وفات کے بعد وہ اس بار عظیم کو نہ سنبھال سکا جو اس پر آ پڑا تھا ۔ اس کی جانشینی کے تھوڑی مدت بعد ہی سلطنت کا قصر دھڑام سے زمین پر آ رہا اور گرد و پیش کے جن سرحدی قبائل ( یعنی جنوں ) کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنی قوت قاہرہ سے خادم بنا رکھا تھا وہ سب قابو سے نکل گئے ۔ لیکن یہ تاویل کسی طرح بھی قرآن کے الفاظ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ قرآن کے الفاظ جو نقشہ ہمارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایسی حالت میں موت طاری ہوئی جبکہ وہ ایک عصا کے سہارے کھڑے یا بیٹھے تھے ۔ اس عصا کی وجہ سے ان کا بے جان جسم اپنی جگہ قائم رہا اور جن یہ سمجھتے ہوئے ان کی خدمت میں لگے رہے کہ وہ زندہ ہیں ۔ آخر کار جب عصا کو گھن لگ گیا اور وہ اندر سے کھوکھلا ہو گیا تو ان کا جسم زمین پر گر گیا اور اس وقت جنوں کو پتہ چلا کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے ۔ اس صاف اور صریح بیان واقعہ کو آخر یہ معنی پہنانے کی کیا معقول وجہ ہے کہ گھن سے مراد حضرت سلیمان کے بیٹے کی نالائقی ہے ، اور عصا سے مراد ان کا اقتدار ہے ، اور ان کے مردہ جسم کے گر جانے سے مراد ان کی سلطنت کا پارہ پارہ ہو جانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو اگر یہی مضمون بیان کرنا ہوتا تو کیا اس کے لیے عربی مبین میں الفاظ موجود نہ تھے کہ اس ہیر پھیر کے ساتھ اسے بیان کیا جاتا ؟ یہ پہیلیوں کی زبان آخر قرآن مجید میں کہاں استعمال کی گئی ہے؟ اور اس زمانے کے عام عرب جو اس کلام کے اولین مخاطب تھے ، یہ پہیلی کیسے بوجھ سکتے تھے؟ پھر اس تاویل کا سب سے زیادہ عجیب حصہ یہ ہے کہ اس میں جنوں سے مراد وہ سرحدی قبائل لیے گیے ہیں جنہیں حضرت سلیمان نے اپنی خدمت میں لگا رکھا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ آخر ان قبائل میں سے کون غیب دانی کا مدعی تھا اور کس کو مشرکین غیب داں سمجھتے تھے؟ آیت کے آخری الفاظ کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر پڑھے تو وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جن سے مراد یہاں لازماً کوئی ایسا گروہ ہے جو یا تو خود غیب دانی کا دعوی رکھتا تھا ، یا لوگ اس کو غیب داں سمجھتے تھے ، اور اس گروہ کے غیب سے ناواقف ہونے کا راز اس واقعہ نے فاش کر دیا کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو زندہ سمجھتے ہوئے خدمت میں لگے رہے ، حالانکہ ان کا انتقال ہو چکا تھا ۔ قرآن مجید کا یہ بیان اس کے لیے کافی تھا کہ ایک ایسا ایماندار آدمی اس کو دیکھ کر اپنے اس خیال پر نظر ثانی کر لیتا کہ جن سے مراد سرحدی قبائل ہیں ۔ لیکن جو لوگ مادہ پرست دنیا کے سامنے جن نامی ایک پوشیدہ مخلوق کا وجود تسلیم کرتے ہوئے شرماتے ہیں وہ قرآن کی اس تصریح کے باوجود اپنی تاویل پر مصر ہیں ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مشرکین عرب جنوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے تھے ، انہیں اللہ کی اولاد سمجھتے تھے اور ان سے پناہ مانگا کرتے تھے : وَجَعَلُوا لِلہِ شُرَکآَءَ الجِنَّ وَخَلَقَھُم ۔ ( الانعام ، 100 ) اور انہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک ٹھہرا لیا حالانکہ اس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَجَعَلُوا بَینَہْ وَبَیْنَ الجِنّۃِ نَسَبَا ۔ ( الصّٰفّٰت ۔ 158 ) اور انہوں نے اللہ کے اور جنوں کے درمیان نسبی تعلق تجویز کر لیا ۔ وَاَنَّہْ کَانَ رِجَال مِّنَ ا لْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ ۔ ( الجن ۔ 6 ) اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے ۔ انہی عقائد میں سے ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ وہ جنوں کو عالم الغیب سمجھتے تھے اور غیب کی باتیں جاننے کے لیے ان کی طرف رجوع کیا کرتے تھے ۔ اللہ تعالیٰ یہاں اسی عقیدے کی تردید کے لیے یہ واقعہ سنا رہا ہے اور اس سے مقصود کفار عرب کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم لوگ خواہ مخواہ جاہلیت کے غلط عقائد پر اصرار کیے چلے جا رہے ہو حالانکہ تمہارے یہ عقائد بالکل بے بنیاد ہیں ( مزید توضیح کے لیے آگے حاشیہ نمبر 63 ملاحظہ ہو )
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی موت کی کیفیت بیان ہو رہی ہے اور یہ بھی کہ جو جنات ان کے فرمان کے تحت کام کاج میں مصروف تھے ان پر ان کی موت کیسے نامعلوم رہی وہ انتقال کے بعد بھی لکڑی کے ٹیکے پر کھڑے ہی رہے اور یہ انہیں زندہ سمجھتے ہوئے سر جھکائے اپنے سخت سخت کاموں میں مشغول رہے ۔ مجاہد وغیرہ فرماتے ہی تقریباً سال بھر اسی طرح گزر گیا ۔ جس لکڑی کے سہارے آپ کھڑے تھے جب اسے دیمک چاٹ گئی اور وہ کھوکھلی ہوگئی تو آپ گرپڑے ۔ اب جنات اور انسانوں کو آپ کی موت کا پتہ چلا ۔ تب تو نہ صرف انسانوں بلکہ خود جنات کو بھی یقین ہوگیا کہ ان میں سے کوئی بھی غیب داں نہیں ۔ ایک مرفوع منکر اور غریب حدیث میں ہے کہ لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس کا مرفوع ہونا ٹھیک نہیں فرماتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جب نماز پڑھتے تو ایک درخت اپنے سامنے دیکھتے اس سے پوچھتے کہ تو کیسا درخت ہے تیرا نام کیا ہے ۔ وہ بتا دیتا آپ اسے اسی استعمال میں لاتے ۔ ایک مرتبہ جب نماز کو کھڑے ہوئے اور اسی طرح ایک درخت دیکھا تو پوچھا تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا ضروب ۔ پوچھا تو کس لئے ہے؟ کہا اس گھر کو اجاڑنے کیلئے تب آپ نے دعا مانگی کہ اللہ میری موت کی خبر جنات پر ظاہر نہ ہونے دے تاکہ انسان کو یقین ہو جائے کہ جن غیب نہیں جانتے ۔ اب آپ ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور جنات کو مشکل مشکل کام سونپ دیئے آپ کا انتقال ہوگیا لیکن لکڑی کے سہارے آپ ویسے ہی کھڑے رہے جنات دیکھتے رہے اور سمجھتے رہے کہ آپ زندہ ہیں اپنے اپنے کام میں مشغول رہے ایک سال کامل ہوگیا ۔ چونکہ دیمک آپ کی لکڑی کو چاٹ رہی تھی سال بھر گزرنے پر وہ اسے کھاگئی اور اب حضرت سلیمان گر پڑے اور انسانوں نے جان لیا کہ جنات غیب نہیں جانتے ورنہ سال بھر تک اس مصیبت میں نہ رہتے ۔ لیکن اس کے ایک راوی عطا بن مسلم خراسانی کی بعض احادیث میں نکارت ہوتی ہے ۔ بعض صحابہ سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی عادت تھی آپ سال سال دو دو سال یا کم و بیش مدت کیلئے مسجد قدس میں اعتکاف میں بیٹھ جاتے آخری مرتبہ انتقال کے وقت بھی آپ مسجد بیت المقدس میں تھے ہر صبح ایک درخت آپ کے سامنے نمودار ہوتا ۔ آپ اس سے نام پوچھتے فائدہ پوچھتے وہ بتاتا آپ اسی کام میں اسے لاتے بالآخر ایک درخت ظاہر ہوا جس نے اپنا نام ضروبہ بتایا کہا تو کس مطلب کا ہے کہا اس مسجد کے اجاڑنے کیلئے ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے فرمانے لگے میری زندگی میں تو یہ مسجد ویران ہوگی نہیں البتہ تو میری موت اور اس شہر کی ویرانی کیلئے ہے ۔ چنانچہ آپ نے اسے اپنے باغ میں لگا دیا مسجد کی بیچ کی جگہ میں کھڑے ہو کر ایک لکڑی کے سہارے نماز شروع کردی ۔ وہیں انتقال ہوگیا لیکن کسی کو اس کا علم نہ ہوا ۔ شیاطین سب کے سب اپنی نوکری بجا لاتے رہے کہ ایسا نہ ہو ہم ڈھیل کریں اور اللہ کے رسول آ جائیں تو ہمیں سزا دیں ۔ یہ محراب کے آگے پیچھے آئے ان میں جو ایک بہت بڑا پاجی شیطان تھا اس نے کہا دیکھو جی اس میں آگے اور پیچھے سوراخ ہیں اگر میں یہاں سے جاکر وہاں سے نکل آؤں تو میری طاقت کو مانو گے یا نہیں؟ چنانچہ وہ گیا اور نکل آیا لیکن اسے حضرت سلیمان کی آواز نہ آئی ۔ دیکھ تو سکتے نہ تھے کیونکہ حضرت سلیمان کی طرف نگاہ بھر کر دیکھتے ہی وہ مرجاتے تھے لیکن اس کے دل میں کچھ خیال سا گزرا اس نے پھر اور جرأت کی اور مسجد میں چلا گیا دیکھتا کہ وہاں جانے کے بعد وہ نہ جلا تو اس کی ہمت اور بڑھ گئی اور اس نے نگاہ بھر کر آپ کو دیکھا تو دیکھا کہ وہ گرے پڑے ہیں اور انتقال فرما چکے ہیں اب آکر سب کو خبر کی لوگ آئے محراب کو کھولا تو واقعی اللہ کے رسول کو زندہ نہ پایا ۔ آپ کو مسجد سے نکال لائے ۔ مدت انتقال کا علم حاصل کرنے کیلئے انہوں نے لکڑی کو دیمک کے سامنے ڈال دیا ایک دن رات تک جس قدر دیمک نے اسے کھایا اسے دیکھ کر اندازہ کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کے انتقال کو پورا سال گزر چکا ۔ تمام لوگوں کو اس وقت کامل یقین ہوگیا کہ جنات جو بنتے تھے کہ ہم غیب کی خبریں جانتے ہیں یہ محض ان کی دھونس تھی ورنہ سال بھر تک کیوں مصیبت جھیلتے رہتے ۔ اس وقت سے جنات گھن کے کیڑے کو مٹی اور پانی لا دیا کرتے ہیں گویا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ کہا یہ بھی تھا کہ اگر تو کچھ کھاتا پیتا ہوتا تو بہتر سے بہتر غذا ہم تجھے پہنچاتے لیکن یہ سب بنی اسرائیل کے علماء کی روایتیں ہیں ان میں جو مطابق حق ہوں قبول ۔ خلاف حق ہوں مردود دونوں سے الگ ہوں وہ نہ تصدیق کے قابل نہ تکذیب کے واللہ اعلم الغیب ۔ حضرت زید بن اسلم سے مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملک الموت سے کہہ رکھا تھا کہ میری موت کا وقت مجھے کچھ پہلے بتا دینا حضرت ملک الموت نے یہی کیا تو آپ نے جنات کو بغیر دروازے کے ایک شیشے کا مکان بنانے کا حکم دیا اور اس میں ایک لکڑی پر ٹیک لگا کر نماز شروع کی یہ موت کے ڈر کی وجہ سے نہ تھا ۔ حضرت ملک الموت اپنے وقت پر آئے اور روح قبض کرکے گئے ۔ پھر لکڑی کے سہارے آپ سال بھر تک اسی طرح کھڑے رہے جنات ادھر ادھر سے دیکھ کر آپ کو زندہ سمجھ کر اپنے کاموں میں آپ کی ہیبت کی وجہ سے مشغول رہے لیکن جو کیڑا آپ کی لکڑی کو کھا رہا تھا جب وہ آدھی کھاچکا تو اب لکڑی بوجھ نہ اٹھا سکی اور آپ گر پڑے جنات کو آپ کی موت کا یقین ہوگیا اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ اور بھی بہت سے اقوال سلف سے یہ مروی ہے ۔