Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
لَقَدۡ كَانَ لِسَبَاٍ فِىۡ مَسۡكَنِهِمۡ اٰيَةٌ  ۚ جَنَّتٰنِ عَنۡ يَّمِيۡنٍ وَّشِمَالٍ ؕ  کُلُوۡا مِنۡ رِّزۡقِ رَبِّكُمۡ وَاشۡكُرُوۡا لَهٗ ؕ بَلۡدَةٌ طَيِّبَةٌ وَّرَبٌّ غَفُوۡرٌ‏‏ ﴿15﴾
قوم سبا کے لئے اپنی بستیوں میں ( قدرت الٰہی کی ) نشانی تھی ان کے دائیں بائیں دو باغ تھے ( ہم نے ان کو حکم دیا تھا کہ ) اپنے رب کی دی ہوئی روزی کھاؤ اور اُس کا شکر ادا کرو یہ عمدہ شہر اور وہ بخشنے والا رب ہے ۔
لقد كان لسبا في مسكنهم اية جنتن عن يمين و شمال كلوا من رزق ربكم و اشكروا له بلدة طيبة و رب غفور
There was for [the tribe of] Saba' in their dwelling place a sign: two [fields of] gardens on the right and on the left. [They were told], "Eat from the provisions of your Lord and be grateful to Him. A good land [have you], and a forgiving Lord."
Qom-e-saba kay liye apni bastiyon mein ( qudrat-e-elahee ki ) nishani thi unn kay dayen bayen do baagh thay ( hum ney unn ko hukum diya tha kay ) apnay rab ki di hui rozi khao aur uss ka shukar ada kero yeh umdah shehar aur woh bakhshney wala rab hai.
حقیقت یہ ہے کہ قوم سبا کے لیے خود اس جگہ ایک نشانی موجود تھی جہاں وہ رہا کرتے تھے ۔ ( ١٠ ) دائیں اور بائیں دونوں طرف باگوں کے دو سلسلے تھے ۔ اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ ، ایک تو شہر بہترین ، دوسرے پروردگار بخشنے والا ۔
بیشک سبا ( ف٤۰ ) کے لیے ان کی آبادی میں ( ف٤۱ ) نشانی تھی ( ف٤۲ ) دو باغ دہنے اور بائیں ( ف٤۳ ) اپنے رب کا رزق کھاؤ ( ف٤٤ ) اور اس کا شکر ادا کرو ( ف٤۵ ) پاکیزہ شہر اور ( ف٤٦ ) بخشنے والا رب ( ف٤۷ )
سبا 25 کے لیے ان کی اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی26 ، دو باغ دائیں اور بائیں 27 ۔ کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اس کا ، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا ۔
درحقیقت ( قومِ ) سبا کے لئے ان کے وطن ہی میں نشانی موجود تھی ۔ ( وہ ) دو باغ تھے ، دائیں طرف اور بائیں طرف ۔ ( اُن سے ارشاد ہوا: ) تم اپنے رب کے رزق سے کھایا کرو اور اس کا شکر بجا لایا کرو ۔ ( تمہارا ) شہر ( کتنا ) پاکیزہ ہے اور رب بڑا بخشنے والا ہے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :25 سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے ۔ اور جو رسول اس عقیدے کو پیش کر رہا تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے ، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی کر رہا ہے ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے پہلے چند عقلی دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر 7 ۔ 8 ۔ 12 میں کر چکے ہیں ۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام کا قصہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانون مکافات کی شہادت دے رہی ہے ۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے ۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا ۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :26 یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ جس طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی سکتی ہے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :27 اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دو ہی باغ تھے ، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی ۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی ۔
قوم سبا کا تفصیلی تذکرہ ۔ قوم سبایمن میں رہتی تھی ۔ تبع بھی ان میں سے ہی تھے ۔ بلقیس بھی انہی میں سے تھیں ۔ یہ بڑی نعمتوں اور راحتوں میں تھے ۔ چین آرام سے زندگی گذار رہے تھے ۔ اللہ کے رسول ان کے پاس آئے انہیں شکر کرنے کی تلقین کی ۔ رب کی وحدانیت کی طرف بلایا اس کی عبادت کا طریقہ سمجھایا ۔ کچھ زمانے تک وہ یونہی رہے لیکن پھر جبکہ انہوں نے سرتابی اور روگردانی کی احکام اللہ بےپرواہی سے ٹال دیئے تو ان پر زور کا سیلاب آیا اور تمام ملک ، باغات اور کھیتیاں وغیرہ تاخت و تاراج ہو گئیں ۔ جس کی تفصیلی یہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سباکسی عورت کا نام ہے ۔ یا مرد کا یا جگہ کا ؟ تو آپ نے فرمایا یہ ایک مرد تھا جس کے دس لڑکے تھے جن میں سے چھ تو یمن میں جا بسے تھے اور چار شام میں ۔ مذحج ، کندہ ، ازد ، اشعری ، اغار ، حمیریہ یہ چھ قبیلے یمن میں ۔ نجم ، جذام ، عاملہ اور غسان یہ چار قبیلے شام میں ۔ ( مسند احمد ) فردہ بن مسیک فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں اپنی قوم میں سے ماننے والوں اور آگے بڑھنے والوں کو لے کر نہ ماننے اور پیچھے ہٹنے والوں سے لڑوں؟ آپ نے فرمایا ہاں ۔ جب میں جانے لگا تو آپ نے مجھے بلا کر فرمایا دیکھو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دینا نہ مانیں تب جہاد کی تیاری کرنا ۔ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سباکس کا نام ہے؟ تو آپ کا جواب تقریباً وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ قبیلہ انمار میں سے بجیلہ اور شعم بھی ہیں ۔ ایک اور مطول روایت میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ حضرت فردہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاہلیت کے زمانے میں قوم سبا کی عزت تھی مجھے اب ان کے ارتداد کا خوف ہے ۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سے جہاد کروں ۔ آپ نے فرمایا ان کے بارے میں مجھے کوئی حکم نہیں دیا گیا ۔ پس یہ آیت اتری ۔ لیکن اس میں غرابت ہے اس سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ، حالانکہ سورت مکیہ ہے محمد بن اسحاق سباکا نسب نامہ اس طرح بیان کرتے ہیں عبدشمس بن العرب بن قحطان اسے سبا اس لئے کہتے ہیں کہ اس نے سب سے پہلے عرب میں دشمن کو قید کرنے کا رواج ڈالا ۔ اس وجہ سے اسے رائش بھی کہتے ہیں ۔ مال کو ریش اور ریاش بھی عربی میں کہتے ہیں ۔ یہ بھی مذکور ہے کہ اس بادشاہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی آپ کی پیشن گوئی کی تھی کہ ملک کا مالک ہمارے بعد ایک نبی ہو گا جو حرم کی عزت کرے گا ۔ اس کے بعد اس کے خلیفہ ہوں گے ، جن کے سامنے دنیا کے بادشاہ سرنگوں ہوجائیں گے پھر ہم میں بھی بادشاہت آئے گی اور بنو قحطان کے ایک نبی بھی ہوں گے اس نبی کا نام احمد ہو گا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کاش کے میں بھی ان کی نبوت کے زمانے کو پالیتا تو ہر طرح کی خدمت کو غنیمت سمجھتا ۔ لوگو جب بھی اللہ کے وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوں تو تم پر فرض ہے کہ ان کا ساتھ دو اور ان کے مددگار بن جاؤ اور جو بھی آپ سے ملے اس پر میری جانب سے فرض ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں میرا سلام پہنچا دے ۔ ( اکیل ہمدانی ) قحطان کے بارے میں تین قول ہیں ایک یہ کہ وہ ارم بن سام بن نوح کی نسل میں سے ہے ۔ دوسرا یہ کہ وہ عابر یعنی حضرت ہود علیہ السلام کی نسل میں سے ہے ۔ تیسرا یہ کہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی نسل سے ہے ۔ اس سب کو تفصیل کے ساتھ حافظ عبدالبررحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الابناہ میں ذکر کیا ہے ۔ بعض روایتوں میں جو آیا ہے کہ سباعرب میں سے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے جن کی نسل سے عرب ہوئے ۔ ان کا نسل ابراہیمی میں سے ہونا مشہور نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ قبیلہ اسلم جب تیروں سے نشانہ بازی کر رہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس نکلے تو آپ نے فرمایا اے اولاد اسماعیل تیر اندازی کئے جاؤ تمہارے والد بھی پورے تیر انداز تھے ۔ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سبا کا سلسلہ نسب خلیل الرحمٰن علیہ السلام تک پہنچتا ہے ۔ اسلم انصار کا ایک قبیلہ تھا اور انصار سارے کے سارے غسان میں سے ہیں اور یہ سب یمنی تھے ، سبا کی اولاد ہیں ۔ یہ لوگ مدینے میں اس وقت آئے جب سیلاب سے ان کا وطن تباہ ہو گیا ۔ ایک جماعت یہں آ کر بسی تھی دوسری شام چلی گئی ۔ انہیں غسانی اس لئے کہتے ہیں کہ اس نام کی پانی والی ایک جگہ پر یہ ٹھہرے تھے ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مثال کے قریب ہے ۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے شعر سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک پانی والی جگہ یا اس کنویں کا نام غسان تھا ۔ یہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی دس اولادیں تھیں اس سے مراد صلبی اولادیں نہیں کیونکہ بعض بعض دو دوتین تین نسلوں بعد کے بھی ہیں ۔ جیسے کہ کتب انساب میں موجود ہے ۔ جو شام اور یمن میں جا کر آباد ہوئے یہ بھی سیلاب کے آنے کے بعد کا ذکر ہے ۔ بعض وہیں رہے بعض ادھر ادھر چلے گئے ۔ دیوار کا قصہ یہ ہے کہ ان کے دونوں جانب پہاڑ تھے ۔ جہاں سے نہریں اور چشمے بہ بہ کر ان کے شہروں میں آتے تھے اسی طرح نالے اور دریا بھی ادھر ادھر سے آتے تھے ان کے قدیمی بادشاہوں میں سے کسی نے ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ایک مضبوط پشتہ بنوا دیا تھا جس دیوار کی وجہ سے پانی ادھر ادھر ہو گیا تھا اور بصورت دریا جاری رہا کرتا تھا جس کے دونوں جانب باغات اور کھیتیاں لگا دی تھی ۔ پانی کی کثرت اور زمین کی عمدگی کی وجہ سے یہ خطہ بہت ہی زرخیز اور ہرا بھرا رہا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ کوئی عورت اپنے سر پر جھلی رکھ کر چلتی تھی ۔ کچھ دور جانے تک پھلوں سے وہ جھلی بالکل بھر جاتی تھی ۔ درختوں سے پھل خود بخود جو جھڑتے تھے وہ اس قدر کثرت سے ہوتے تھے کہ ہاتھ سے توڑنے کی حاجت نہیں پڑتی تھی ۔ یہ دیوار مارب میں تھی صنعاء سے تین مراحل پر تھی اور سد مارب کے نام سے مشہور تھی ۔ آب و ہوا کی عمدگی ، صحت ، مزاج اور اعتدال عنایت الہیہ سے اس طرح تھا کہ ان کے ہاں مکھی ، مچھر اور زہریلے جانور بھی نہیں ہوتے تھے یہ اس لئے تھا کہ وہ لوگ اللہ کی توحید کو مانیں اور دل و جان اس کی خلوص کے ساتھ عبادت کریں ۔ یہ تھی وہ نشانی قدرت جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ دونوں پہاڑوں کے درمیان آباد بستی اور بستی کے دونوں طرف ہرے بھرے پھل دار باغات اور سرسبز کھیتیاں اور ان سے جناب باری نے فرما دیا تھا کہ اپنے رب کی دی ہوئی روزیاں کھاؤ پیو اور اس کے شکر میں لگے رہو ، لیکن انہوں نے اللہ کی توحید کو اور اس کی نعمتوں کے شکر کو بھلا دیا اور سورج کی پرستش کرنے لگے ۔ جیسے کہ ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ ( وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ 22؀ ) 27- النمل:22 ) ، یعنی میں تمہارے پاس سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں ۔ ایک عورت ان کی بادشاہت کر رہی ہے جس کے پاس تمام چیزیں موجود ہیں عظیم الشان تخت سلطنت پر وہ متمکن ہے ۔ رانی اور رعایا سب سورج پرست ہیں ۔ شیطان نے ان کو گمراہ کر کھا ہے ۔ بےراہ ہو رہے ہیں ۔ مروی ہے کہ بارہ یا تیرہ پیغمبر ان کے پاس آئے تھے ۔ بالاخر شامت اعمال رنگ لائی جو دیوار انہوں نے بنا رکھی تھی وہ چوہوں نے اندر سے کھوکھلی کر دی اور بارش کے زمانے میں وہ ٹوٹ گئ پانی کی ریل پیل ہو گئی ان دریاؤں کے ، چشموں کے ، بارش کے نالوں کے ، سب پانی آ گئے ان کی بستیاں ان کے محلات ان کے باغات اور ان کی کھیتیاں سب تباہ و برباد ہو گئیں ۔ ہاتھ ملتے رہ گئے کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ پھر تو وہ تباہی آئی کہ اس زمین پر کوئی پھلدار درخت جمتا ہی نہ تھا ۔ پیلو ، جھاؤ ، کیکر ، ببول اور ایسے ہی بےمیوہ بدمزہ بیکار درخت اگتے تھے ۔ ہاں البتہ کچھ بیریوں کے درخت اگ آئے تھے جو نسبتاً اور درختوں سے کارآمد تھے ۔ لیکن وہ بھی بہت زیادہ خاردار اور بہت کم پھل دار تھے ۔ یہ تھا ان کے کفر و شرک کی سرکشی اور تکبر کا بدلہ کہ نعمتیں کھو بیٹھے اور زخموں میں مبتلا ہوگئے کافروں کو یہی اور اس جیسی ہی سخت سزائیں دی جاتی ہیں ۔ حضرت ابو خیرہ فرماتے ہیں گناہں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آ جائے روزگار میں تنگی واقع ہو لذتوں میں سختی آ جائے یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہو گیا ۔