Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
فَاَعۡرَضُوۡا فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ سَيۡلَ الۡعَرِمِ وَبَدَّلۡنٰهُمۡ بِجَنَّتَيۡهِمۡ جَنَّتَيۡنِ ذَوَاتَىۡ اُكُلٍ خَمۡطٍ وَّاَثۡلٍ وَّشَىۡءٍ مِّنۡ سِدۡرٍ قَلِيۡلٍ‏ ﴿16﴾
لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب ( کا پانی ) بھیج دیا اور ہم نے ان کے ( ہرے بھرے ) باغوں کے بدلے دو ( ایسے ) باغ دیئے جو بدمزہ میووں والے اور ( بکثرت ) جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے ۔
فاعرضوا فارسلنا عليهم سيل العرم و بدلنهم بجنتيهم جنتين ذواتي اكل خمط و اثل و شيء من سدر قليل
But they turned away [refusing], so We sent upon them the flood of the dam, and We replaced their two [fields of] gardens with gardens of bitter fruit, tamarisks and something of sparse lote trees.
Lekin unhon ney roo-gardani ki to hum ney unn per zor kay selab ( ka paani ) bhej diya aur hum ney unn kay ( haray bharay ) baaghon kay badlay do ( aisay ) baagh diye jo bad-maza mewon walay aur ( ba-kasrat ) jhao aur kuch bairi kay darakhton walay thay.
پھر بھی انہوں نے ( ہدایت سے ) منہ موڑ لیا ، اس لیے ہم نے ان پر بندو الا سیلاب چھوڑ دیا ، اور ان کے دونوں طرف کے باغوں کو ایسے دو باغوں میں تبدیل کردیا جو بدمزہ پھلوں ، جھاؤ کے درختوں اور تھوڑی سی بیریوں پر مشتمل تھے ۔
تو انہوں نے منہ پھیرا ( ف٤۸ ) تو ہم نے ان پر زور کا اہلا ( سیلاب ) بھیجا ( ف٤۹ ) اور ان کے باغوں کے عوض دو باغ انھیں بدل دیے جن میں بکٹا ( بدمزہ ) میوہ ( ف۵۰ ) اور جھاؤ اور کچھ تھوڑی سی بیریاں ( ف۵۱ )
مگر وہ منہ موڑ گئے 28 ۔ آخرکار ہم نے ان پر بند توڑ سیلاب بھیج دیا 29 اور ان کے پچھلے دو باغوں کی جگہ دو اور باغ انہیں دیے جن میں کڑوے کسیلے پھل اور جھاؤ کے درخت تھے اور کچھ تھوڑی سی بیریاں30 ۔
پھر انہوں نے ( طاعت سے ) مُنہ پھیر لیا تو ہم نے ان پر زور دار سیلاب بھیج دیا اور ہم نے اُن کے دونوں باغوں کو دو ( ایسے ) باغوں سے بدل دیا جن میں بدمزہ پھل اور کچھ جھاؤ اور کچھ تھوڑے سے بیری کے درخت رہ گئے تھے
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :28 یعنی بندگی و شکر گزاری کے بجائے انہوں نے نافرمانی و نمک حرامی کی روش اختیار کر لی ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :29 اصل میں لفظ سَیْلُ الْعَرِم استعمال کیا گیا ہے ۔ عَرِم جنوبی عرب کی زبان کے لفظ عرمن سے ماخوذ ہے جس کے معنی بند کے ہیں ۔ یمن کے کھنڈروں میں جو قدیم کتبات موجودہ زمانے میں دستیاب ہوئے ہیں ان میں یہ لفظ اس معنی میں بکثرت استعمال ہوا ہے ۔ مثلاً 542ء یا 543ء کا ایک کتبہ جو یمن کے حبشی گورنر اَبرہہ نے سدّ مارِب کی مرمت کرانے کے بعد نصب کرایا تھا اس میں وہ اس لفظ کو بار بار بند کے معنی میں استعمال کرتا ہے ۔ لہٰذا سیل العَرِم سے مراد وہ سیلاب ہے جو کسی بند کے ٹوٹنے سے آئے ۔ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :30 یعنی سیل العَرِم کے آنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ سارا علاقہ برباد ہو گیا ۔ سبا کے لوگوں نے پہاڑوں کے درمیان بند باندھ باندھ کر جو نہریں جاری کی تھیں وہ سب ختم ہو گئیں اور آب پاشی کا پورا نظام درہم برہم ہو گیا ۔ اس کے بعد وہی علاقہ جو کبھی جنت نظیر بنا ہوا تھا خود رو جنگلی درختوں سے بھر گیا اور اس میں کھانے کے قابل اگر کوئی چیز باقی رہ گئی تو وہ محض جھاڑی بوٹی کے بیر تھے ۔