لیکن انہوں نے پھر کہا اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر دور دراز کر دے چونکہ خود انہوں نے اپنے ہاتھوں اپنا برا کیا اس لئے ہم نے انہیں ( گذشتہ ) افسانوں کی صورت میں کر دیا اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے اڑا دیئے بلاشبہ ہر ایک صبرو شکر کرنے والے کے لئے اس ( ماجرے ) میں بہت سی عبرتیں ہیں ۔
But [insolently] they said, "Our Lord, lengthen the distance between our journeys," and wronged themselves, so We made them narrations and dispersed them in total dispersion. Indeed in that are signs for everyone patient and grateful.
Lekin unhon ney phir kaha kay aey humaray perwerdigar! Humaray safar door daraz ker day chunkay khud unhon ney apnay hathon apna bura kiya iss liye hum ney unhen ( guzishta ) fasano ki soorat mein ker diya aur unn kay tukray tukray ura diye bila shuba her aik sabar-o-shukar kerney walay kay liye iss ( maajray ) mein boht si ibraten hain.
اس پر وہ کہنے لگے کہ : ہمارے پروردگار ! ہمارے سفر کی منزلوں کے د رمیان دور دور کے فاصلے پیدا کردے ، اور یوں انہوں نے اپنی جانوں پر ستم ڈھایا ، جس کے نتیجے میں ہم نے انہیں افسانہ ہی افسانہ بنا دیا ، اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے بالکل تتر بتر کردیا ۔ ( ١٣ ) یقینا اس واقعے میں ہر اس شخص کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو صبر و شکر کا خوگر ہو ۔
تو بولے اے ہمارے رب! ہمیں سفر میں دوری ڈال ( ف۵۸ ) اور انہوں نے خود اپنا ہی نقصان کیا تو ہم نے انھیں کہانیاں کردیا ( ف۵۹ ) اور انھیں پوری پریشانی سے پراگندہ کردیا ( ف٦۰ ) بیشک اس میں ضروری نشانیاں ہیں ہر بڑے صبر والے ہر بڑے شکر والے کے لیے ( ف٦۱ )
مگر انہوں نے کہا اے ہمارے رب ، ہمارے سفر کی مسافتیں لمبی کر دے 32 ۔ انہوں نے اپنے آپ ظلم کیا ۔ آخرکار ہم نے انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انھیں بالکل تتر بتر کر ڈالا 33 ۔ یقینا اس میں نشانیاں ہیں ہر اس شخص کے لیے جو بڑا صابر و شاکر ہو34 ۔
تو وہ کہنے لگے: اے ہمارے رب! ہماری منازلِ سفر کے درمیان فاصلے پیدا کر دے ، اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تو ہم نے انہیں ( عبرت کے ) فسانے بنا دیا اور ہم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے منتشر کر دیا ۔ بیشک اس میں بہت صابر اور نہایت شکر گزار شخص کے لئے نشانیاں ہیں
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :32
ضروری نہیں ہے کہ انہوں نے زبان ہی سے یہ دعا کی ہو ۔ دراصل جو شخص بھی خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا زبان حال سے یہ کہتا ہے کہ خدایا ، میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں ۔ اور اسی طرح جو قوم اللہ کے فضل سے غلط فائدہ اٹھاتی ہے وہ گویا اپنے رب سے یہ دعا کرتی ہے کہ اے پروردگار ، یہ نعمتیں ہم سے سلب کر لے کیونکہ ہم ان کے قابل نہیں ہیں ۔
علاوہ بریں آیت ( رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا ) ( خدایا ہمارے سفر دور دراز کردے ) کے الفاظ سے کچھ یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ شاید سبا کی قوم کو اپنی آبادی کی کثرت کھلنے لگی تھی اور دوسری نادان قوموں کی طرح اس نے بھی اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو خطرہ سمجھ کر انسانی نسل کی افزائش کو روکنے کی کوشش کی تھی ۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :33
یعنی سبا کی قوم ایسی منتشر ہوئی کہ اس کی پراگندگی ضرب المثل ہو گئی - آج بھی اہل عرب اگر کسی گروہ کے انتشار کا ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں تفرقوا ایدی سبا وہ تو ایسے پراگندہ ہو گئے جیسے سبا کی قوم پراگندہ ہوئی تہی ۔ اللہ تعالی کی طرف سے جب زوال نعمت کا دور شروع ہوا تو سبا کے مختلف قبیلے اپنا وطن چھوڑ چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے ۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رخ کیا ۔ اوس و خزرج کے قبیلے یثرب میں جا بسے ۔ خزاعہ نے جدے کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی ۔ اَزد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا ۔ لخم اور جذام اور کندہ بھی نکلنے پر مجبور ہوئے ۔ حتی کہ سبا نام کی کوئی قوم ہی دنیا میں باقی نہ رہی ۔ صرف اس کا ذکر افسانوں میں رہ گیا ۔
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :34
اس سیاق و سباق میں صابر و شاکر سے مراد ایسا شخص یا گروہ ہے جو اللہ کی طرف سے نعمتیں پاکر آپے سے باہر نہ ہو جائے ، نہ خوشحالی پر پھولے اور نہ اس خدا کو بھول جائے جس نے یہ سب کچھ اسے عطا کیا ہے ۔ ایسا انسان ان لوگوں کے حالات سے بہت کچھ سبق لے سکتا ہے جنہوں نے عروج و ترقی کے مواقع پاکر نافرمانی کی روش اختیار کی اور اپنے انجام بد سے دوچار ہو کر رہے ۔