Surah

Information

Surah # 34 | Verses: 54 | Ruku: 6 | Sajdah: 0 | Chronological # 58 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَلَقَدۡ صَدَّقَ عَلَيۡهِمۡ اِبۡلِيۡسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوۡهُ اِلَّا فَرِيۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‏ ﴿20﴾
اور شیطان نے ان کے بارے میں اپنا گمان سچا کر دکھایا یہ لوگ سب کے سب اس کے تابعدار بن گئے سوائے مومنوں کی ایک جماعت کے ۔
و لقد صدق عليهم ابليس ظنه فاتبعوه الا فريقا من المؤمنين
And Iblees had already confirmed through them his assumption, so they followed him, except for a party of believers.
Aur shetan ney unn kay baray mein apna guman sach ker dikhaya yeh log sab kay sab uss kay tabeydaar bann gaye siwaye momino ki aik jamaat kay.
اور واقعی ان لوگوں کے بارے میں ابلیس نے اپنا خیال درست پایا ( ١٤ ) چنانچہ یہ اسی کے پیچھے چل پڑے ، سوائے اس گروہ کے جو مومن تھا ۔
اور بیشک ابلیس نے انھیں اپنا گمان سچ کر دکھایا ( ف٦۲ ) تو وہ اس کے پیچھے ہولیے مگر ایک گروہ کہ مسلمان تھا ( ف٦۳ )
ان کے معاملہ میں ابلیس نے اپنا گمان صحیح پایا اور انہوں نے اسی کی پیروی کی ، بجز ایک تھوڑے سے گروہ کی جو مومن تھا 35 ۔
بیشک ابلیس نے ان کے بارے میں اپنا خیال سچ کر دکھایا تو ان لوگوں نے اس کی پیروی کی بجز ایک گروہ کے جو ( صحیح ) مومنین کا تھا
سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :35 تاریخ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قدیم زمانے سے قوم سبا میں ایک عنصر موجود تھا جو دوسرے معبودوں کو ماننے کے بجائے خدائے واحد کو مانتا تھا ۔ موجودہ زمانے کی اثری تحقیقات کے سلسلے میں یمن کے کھنڈروں سے جو کتبات ملے ہیں ان میں سے بعض اس قلیل عنصر کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ 650 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے کے بعض کتبات بتاتے ہیں کہ مملکت سبا کے متعدد مقامات پر ایسی عبادت گاہیں بنی ہوئی تھیں جو ذسموی یا ذو سماوی ( یعنی رب السماء ) کی عبادت کے لیے مخصوص تھیں ۔ بعض مقامات پر اس معبود کا نام ملکن ذُسموی ( وہ بادشاہ جو آسمانوں کا مالک ہے ) لکھا گیا ہے ۔ یہ عنصر مسلسل صدیوں تک یمن میں موجود رہا ۔ چنانچہ 378 کے ایک کتبے میں بھی الٰہ ذو سموی کے نام سے ایک عبادت گاہ کی تعمیر کا ذکر ملتا ہے ۔ پھر 465 کے ایک کتبے میں یہ الفاظ پائے جاتے ہیں: بنصر وردا الٰھن بعل سمین وارضین ( یعنی اس خدا کی مدد اور تائید سے جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے ) ۔ اسی زمانہ کے ایک اور کتبے میں جس کی تاریخ 458 قبل مسیح ہے اسی خدا کے لیے رحمان کا لفظ بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ اصل الفاظ ہیں بردا رحمنن ( یعنی رحمان کی مدد سے ) ۔
ابلیس اور اس کا عزم ۔ سبا کے قصے کے بیان کے بعد شیطان کے اور مریدوں کا عام طور پر ذکر فرماتا ہے کہ وہ ہدایت کے بدلے ضلالت بھلائی کے بدلے برائی لے لیتے ہیں ۔ ابلیس نے راندہ درگاہ ہو کر جو کہا تھا کہ میں ان کی اولاد کو ہر طرح برباد کرنے کی کوشش کروں گا اور تھوڑی سی جماعت کے سوا باقی سب لوگوں کو تیری سیدھی راہ سے بھٹکا دوں گا ۔ اس نے یہ کر دکھایا اور اولاد آدم کو اپنے پنجے میں پھانس لیا ۔ جب حضرت آدم و حوا اپنی خطا کی وجہ سے جنت سے اتار دیئے گئے اور ابلیس لعین بھی ان کے ساتھ اترا اس وقت وہ بہت خوش تھا اور جی میں اترا رہا تھا کہ جب انہیں میں نے بہکا لیا تو ان کی اولاد کو تباہ کر دینا تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اس خبیث کا قول تھا کہ میں ابن آدم کو سبز باغ دکھاتا رہوں گا غفلت میں رکھوں گا ۔ طرح طرح سے دھوکے دوں گا اور اپنے جال میں پھنسائے رکھوں گا ۔ جس کے جواب میں جناب باری جل جلالہ نے فرمایا تھا مجھے بھی اپنی عزت کی قسم موت کے غرغرے سے پہلے جب کبھی وہ توبہ کرے گا میں فوراً قبول کرلوں گا ۔ وہ مجھے جب پکارے گا میں اس کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا ۔ مجھ سے جب کبھی جو کچھ مانگے گا میں اسے دوں گا ۔ مجھ سے جب وہ بخشش طلب کرے گا میں اسے بخش دوں گا ۔ ( ابن ابی حاتم ) ، اس کا کوئی غلبہ ، حجت ، زبردستی ، مارپیٹ انسان پر نہ تھی ۔ صرف دھوکہ ، فریب اور مکر بازی تھی جس میں یہ سب پھنس گئے ۔ اس میں حکمت الٰہی یہ تھی کہ مومن و کافر ظاہر ہو جائیں ۔ حجت اللہ ختم ہو جائے آخرت کو ماننے والے شیطان کی نہیں مانیں گے ۔ اس کے منکر رحمان کی اتباع نہیں کریں گے ۔ اللہ ہر چیز پر نگہبان ہے ۔ مومنوں کی جماعت اس کی حفاظت کا سہارا لیتی ہے اس لئے ابلیس ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا اور کافروں کی جماعت خود اللہ کو چھوڑ دیتی ہے اس لئے ان پر سے اللہ کی نگہبانی ہٹ جاتی ہے اور وہ شیطان کے ہر فریب کا شکار بن جاتے ہیں ۔