Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَ لۡحَمۡدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ جَاعِلِ الۡمَلٰٓٮِٕكَةِ رُسُلًا اُولِىۡۤ اَجۡنِحَةٍ مَّثۡنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ؕ يَزِيۡدُ فِى الۡخَـلۡقِ مَا يَشَآءُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ‏ ﴿1﴾
اس اللہ کے لئے تمام تعریفیں سزاوار ہیں جو ( ابتداء ) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر ( قاصد ) بنانے والا ہے مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالٰی یقیناً ہرچیز پر قادر ہے ۔
الحمد لله فاطر السموت و الارض جاعل الملىكة رسلا اولي اجنحة مثنى و ثلث و ربع يزيد في الخلق ما يشاء ان الله على كل شيء قدير
[All] praise is [due] to Allah , Creator of the heavens and the earth, [who] made the angels messengers having wings, two or three or four. He increases in creation what He wills. Indeed, Allah is over all things competent.
Uss Allah kay liye tamam tareefen sazawaar hain jo ( ibtida’an ) aasmano aur zamin ka peda kerney wala aur do do teen teen char char paron walay farsihton ko apna payghumber ( qasid ) bananey wala hai makhlooq mein jo chahaye ziyadti kerta hai Allah Taalaa yaqeenan her cheez per qadir hai.
تمام تر تعریف اللہ کی ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ، جس نے ان فرشتوں کو پیغام لے جانے کے لیے مقرر کیا ہے ، جو دو دو ، تین تین اور چار چار پروں والے ہیں ۔ وہ پیدائش میں جتنا چاہتا ہے اضافہ کردیتا ہے ۔ ( ١ ) بیشک اللہ ہر چیز کی قدرت رکھنے والا ہے ۔
سب خوبیاں اللہ کو جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا فرشتوں کو رسول کرنے والا ( ف۲ ) جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں ، بڑھاتا ہے آفرینش ( پیدائش ) میں جو چاہے ( ف۳ ) بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے ،
تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کر نے والا 1 ہے ۔ ( ایسے فرشتے ) جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار بازو 2 ہیں ۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے اضافہ کرتا 3 ہے ۔ یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔
تمام تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جو آسمانوں اور زمین ( کی تمام وسعتوں ) کا پیدا فرمانے والا ہے ، فرشتوں کو جو دو دو اور تین تین اور چار چار پَروں والے ہیں ، قاصد بنانے والا ہے ، اور تخلیق میں جس قدر چاہتا ہے اضافہ ( اور توسیع ) فرماتا رہتا ہے ، بیشک اﷲ ہر چیز پر بڑا قادر ہے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :1 اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں ، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے ۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں ، ان کی حیثیت اللہ وحدہ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے ۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسی طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اڑے پھرتے ہیں ۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :2 ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے ۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے ۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعت رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :3 ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں ۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے ( بخاری ۔ مسلم ۔ ترمذی ) ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے ، ان کے چھ سو بازو تھے افق پر چھائے ہوئے تھے ، ( ترمذی ) ۔
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں فاطر کی بالکل ٹھیک معنی میں نے سب سے پہلے ایک اعرابی کی زبان سے سن کر معلوم کئے ۔ وہ اپنے ایک ساتھی اعرابی سے جھگڑتا ہوا آیا ایک کنویں کے بارے میں ان کا اختلاف تھا تو اعرابی نے کہا انا فطرتھا یعنی پہلے پہل میں نے ہی اسے بنایا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ابتداء بےنمونہ صرف اپنی قدرت کاملہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ۔ ضحاک سے مروی ہے کہ فاطر کے معنی خالق کے ہیں ۔ اپنے اور اپنے نبیوں کے درمیان قاصد اس نے اپنے فرشتوں کو بنایا ہے ۔ جو پر والے ہیں اڑتے ہیں تاکہ جلدی سے اللہ کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا دیں ۔ اس میں سے بعض دو پروں والے ہیں بعض کے تین تین ہیں بعض کے چار چار پر ہیں ۔ بعض ان سے بھی زیادہ ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور ہر دو پر کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ تھا ۔ یہاں بھی فرماتا ہے رب جو چاہے اپنی مخلوق میں زیادتی کرے ۔ جس سے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ پر کر دیتا ہے اور کائنات میں جو چاہے رچاتا ہے ۔ اس سے مراد اچھی آواز بھی لی گئی ۔ چنانچہ ایک شاذ قرأت فی الحلن ح کے ساتھ بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔