Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَفَمَنۡ زُيِّنَ لَهٗ سُوۡٓءُ عَمَلِهٖ فَرَاٰهُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰهَ يُضِلُّ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ‌ۖ  فَلَا تَذۡهَبۡ نَـفۡسُكَ عَلَيۡهِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَصۡنَـعُوۡنَ‏ ﴿8﴾
کیا پس وہ شخص جس کے لئے اس کے برے اعمال مزین کر دیئے گئے ہیں پس وہ انہیں اچھا سمجھتا ہے ( کیا وہ ہدایت یافتہ شخص جیسا ہے ) ( یقین مانو ) کہ اللہ جسے چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے ۔ پس آپ کو ان پر غم کھا کھا کر اپنی جان ہلاکت میں نہ ڈالنی چا ہیے ، یہ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے یقیناً اللہ تعالٰی بخوبی واقف ہے ۔
افمن زين له سوء عمله فراه حسنا فان الله يضل من يشاء و يهدي من يشاء فلا تذهب نفسك عليهم حسرت ان الله عليم بما يصنعون
Then is one to whom the evil of his deed has been made attractive so he considers it good [like one rightly guided]? For indeed, Allah sends astray whom He wills and guides whom He wills. So do not let yourself perish over them in regret. Indeed, Allah is Knowing of what they do.
Kiya pus woh shaks jiss kay liye uss kay burray aemaal muzayyan ker diye gaye hain pus woh unhen acha samajhta hai ( kiya woh hidayat yaafta shaks jaisa hai ) ( yaqeen mano ) kay Allah jissay chahaye gumraah kerta hai aur jissay chahaye raah-e-raast dikhata hai pus aap ko inn per ghum kha kha ker apni jaan halak mein na daalni chahayey yeh jo kuch ker rahey hain uss say yaqeenan Allah Taalaa ba-khoobi waqif hai.
بھلا بتاؤ کہ جس شخص کی نظروں میں اس کی بدعملی ہی خوشنما بنا کر پیش کی گئی ہو ، جس کی بنا پر وہ اس بدعملی کو اچھا سمجھتا ہو ( وہ نیک آدمی کے برابر کیسے ہوسکتا ہے؟ ) کیونکہ اللہ جس کو چاہتا ہے راستے سے بھٹکا دیتا ہے ، اور جس کو چاہتا ہے ٹھیک راستے پر پہنچا دیتا ہے ۔ ( ٢ ) لہذا ( اے پیغمبر ) ایسا نہ ہو کہ ان ( کافروں ) پر افسوس کے مارے تمہاری جان ہی جاتی رہے ۔ یقین رکھو کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اسے خوب جانتا ہے ۔
تو کیا وہ جس کی نگاہ میں اس کا برا کام آراستہ کیا گیا کہ اس نے اسے بھلا سمجھا ہدایت والے کی طرح ہوجائے گا ( ف۱۹ ) اس لیے اللہ گمراہ کرتا ہے جسے چاہے اور راہ دیتا ہے جسے چاہے ، تو تمہاری جان ان پر حسرتوں میں نہ جائے ( ف۲۰ ) اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں ،
۔ ( بھلا 15 کچھ ٹھکانا ہے اس شخص کی گمراہی کا ) جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھ رہا 16 ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے ۔ پس ( اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ) خواہ مخواہ تمہاری جان ان لوگوں کی خاطر غم و افسوس میں نہ 17 گھلے ۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس کو خوب جانتا 18 ہے ۔
بھلا جس شخص کے لئے اس کا برا عمل آراستہ کر دیا گیا ہو اور وہ اسے ( حقیقتاً ) اچھا سمجھنے لگے ( کیا وہ مومنِ صالح جیسا ہو سکتا ہے ) ، سو بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت فرماتا ہے ، سو ( اے جانِ جہاں! ) ان پر حسرت اور فرطِ غم میں آپ کی جان نہ جاتی رہے ، بیشک وہ جو کچھ سرانجام دیتے ہیں اﷲ اسے خوب جاننے والا ہے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :15 اوپر کے دو پیرا گراف عوام الناس کو خطاب کر کے ارشاد ہوئے تھے ۔ اب اس پیرا گراف میں ان علمبرداران ضلالت کا ذکر ہو رہا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :16 یعنی ایک بگڑا ہوا آدمی تو وہ ہوتا ہے جو برا کام تو کرتا ہے مگر یہ جانتا اور مانتا ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے برا کر رہا ہے ۔ ایسا شخص سمجھانے سے بھی درست ہو سکتا ہے اور کبھی خود اس کا اپنا ضمیر بھی ملامت کر کے اسے راہ راست پر لا سکتا ہے ۔ کیونکہ اس کی صرف عادتیں ہی بگڑی ہیں ۔ ذہن نہیں بگڑا ۔ لیکن ایک دوسرا شخص ایسا ہوتا ہے جس کا ذہن بگڑ چکا ہوتا ہے ، جس میں برے اور بھلے کی تمیز باقی نہیں رہتی ، جس کے لیے گناہ کی زندگی ایک مرغوب اور تابناک زندگی ہوتی ہے ، جو نیکی سے گھن کھاتا ہے اور بدی کو عین تہذیب و ثقافت سمجھتا ہے ، جو صلاح و تقویٰ کو دقیانوسیت اور فسق و فجور کو ترقی پسندی خیال کرتا ہے ، جس کی نگاہ میں ہدایت گمراہی اور گمراہی سراسر ہدایت بن جاتی ہے ۔ ایسے شخص پر کوئی نصیحت کار گر نہیں ہوتی ۔ وہ نہ خود اپنی حماقتوں پر متنبہ ہوتا ہے اور نہ کسی سمجھانے والے کی بات سن کر دیتا ہے ۔ ایسے آدمی کے پیچھے پڑنا لا حاصل ہے ۔ اسے ہدایت دینے کی فکر میں اپنی جان گھلانے کے بجائے داعی حق کو ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی چاہیے جن کے ضمیر میں ابھی زندگی باقی ہو اور جنہوں نے اپنے دل کے دروازے حق کی آواز کے لیے بند نہ کر لیے ہوں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :17 پہلے فقرے اور اس فقرے کے درمیان یہ ارشاد کہ اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے راہ راست دکھا دیتا ہے صاف طور پر یہ معنی دے رہا ہے کہ جو لوگ اس حد تک اپنے ذہن کو بگاڑ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور انہی راہوں میں بھٹکنے کے لیے انہیں چھوڑ دیتا ہے جن میں بھٹکتے رہنے پر وہ خود مصر ہوتے ہیں ۔ یہ حقیقت سمجھا کر اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تلقین فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کو راہ راست پر لے آنا تمہارے بس میں نہیں ہے ۔ لہٰذا ان کے معاملہ میں صبر کر لو اور جس طرح اللہ کو ان کی پروا نہیں رہی ہے تم بھی ان کے حال پر غم کھانا چھوڑ دو ۔ اس مقام پر دو باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں ۔ ایک یہ کہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ عامۃ الناس نہیں تھے بلکہ مکہ معظمہ کے وہ سردار تھے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر جھوٹ ، ہر فریب اور ہر مکر سے کام لے رہے تھے ۔ یہ لوگ درحقیقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ تھے ۔ خوب جانتے تھے کہ آپ کس چیز کی طرف بلا رہے ہیں اور آپ کے مقابلے میں وہ خود کن جہالتوں اور اخلاقی خرابیوں کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یہ سب کچھ جاننے اور سمجھ لینے کے بعد ٹھنڈے دل سے ان کا فیصلہ یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نہیں چلنے دینا ہے ۔ اور اس غرض کے لیے انہیں کوئی اوچھے سے اوچھا ہتھیار اور کوئی ذلیل سے ذلیل ہتھکنڈا استعمال کرنے میں باک نہ تھا ۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ جو لوگ جان بوجھ کر اور آپس میں مشورے کر کر کے آئے دن ایک نیا جھوٹ تصنیف کریں اور اسے کسی شخص کے خلاف پھیلائیں وہ دنیا بھر کو دھوکا دے سکتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تو وہ جھوٹا جانتے ہیں اور خود ان سے تو یہ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی کہ جس شخص پر انہوں نے ایک الزام لگایا ہے وہ اس سے بری ہے ۔ پھر اگر وہ شخص جس کے خلاف یہ جھوٹے ہتھیار استعمال کیے جا رہے ہوں ، ان کے جواب میں کبھی صداقت و راستبازی سے ہٹ کر کوئی بات نہ کرے تو ان ظالموں سے یہ بات بھی کبھی چھپی نہیں رہ سکتی کہ ان کا مدمقابل ایک سچا اور کھرا انسان ہے ۔ اس پر بھی جن لوگوں کو اپنے کرتوتوں پر ذرا شرم نہ آئے اور وہ سچائی کا مقابلہ مسلسل جھوٹ سے کرتے ہی چلے جائیں ان کی یہ روش خود ہی اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ اللہ کی پھٹکار ان پر پڑ چکی ہے اور ان میں برے بھلے کی کوئی تمیز باقی نہیں رہی ہے ۔ دوسری بات جسے اس موقع پر سمجھ لینا چاہیے وہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے پیش نظر محض اپنے رسول پاک کو ان کی حقیقت سمجھانا ہوتا تو وہ خفیہ طور پر صرف آپ ہی کو سمجھا سکتا تھا ۔ اس غرض کے لیے وحی جلی میں علی الاعلان اس کے ذکر کی حاجت نہ تھی ۔ قرآن مجید میں اسے بیان کرنے اور دنیا بھر کو سنا دینے کا مقصود دراصل عوام الناس کو متنبہ کرنا تھا کہ جب لیڈروں اور پیشواؤں کے پیچھے تم آنکھیں بند کیے چلے جا رہے ہو وہ کیسے بگڑے ہوئے ذہن کے لوگ ہیں اور ان کی بیہودہ حرکات کس طرح منہ سے پکار پکار کر بتا رہی ہیں کہ ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :18 اس فقرے میں آپ سے آپ یہ دھمکی پوشیدہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ انہیں ان کرتوتوں کی سزا دے گا ۔ کسی حاکم کا کسی مجرم کے متعلق یہ کہنا کہ میں اس کی حرکتوں سے خوب واقف ہوں ، صرف یہی معنی نہیں دیتا کہ حاکم کو اس کی حرکتوں کا علم ہے بلکہ اس میں یہ تنبیہ لازماً مضمر ہوتی ہے کہ میں اس کی خبر لے کر رہوں گا ۔