Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
اَ لَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا لَهُمۡ عَذَابٌ شَدِيۡدٌ ؕ وَّالَّذِيۡنَ اٰمَنُوا وَعَمِلُوۡا الصّٰلِحٰتِ لَهُمۡ مَّغۡفِرَةٌ وَّاَجۡرٌ كَبِيۡرٌ‏ ﴿7﴾
جو لوگ کافر ہوئے ان کے لئے سخت سزا ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کے لئے بخشش ہے اور ( بہت ) بڑا اجر ہے ۔
الذين كفروا لهم عذاب شديد و الذين امنوا و عملوا الصلحت لهم مغفرة و اجر كبير
Those who disbelieve will have a severe punishment, and those who believe and do righteous deeds will have forgiveness and great reward.
Jo log kafir huyey unn kay liye sakht saza hai aur jo log eman laye aur nek aemaal kiye unn kay liye baksshish hai aur ( boht ) bara ajar hai.
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ، ان کے لیے شدید عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں ، اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں ، ان کے لیے مغفرت ہے اور بڑا اجر ۔
کافروں کے لیے ( ف۱۷ ) سخت عذاب ہے ، اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ( ف۱۸ ) ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے ،
جو لوگ کفر 13 کریں گے ان کے لیے سخت عذاب ہے اور جو ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر14 ہے ۔ ع1
کافر لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے ، اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے ان کے لئے مغفرت اور بہت بڑا ثواب ہے
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :13 یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی اس دعوت کو ماننے سے انکار کر دیں گے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :14 یعنی اللہ تعالیٰ ان کی خطاؤں سے درگزر فرمائے گا اور جو نیک عمل انہوں نے کیے ہوں گے ان کا محض برابر سرابر ہی اجر دے کر ہی نہ رہ جائے گا بلکہ انہیں بڑا اجر عطا فر مائے گا ۔
اوپر بیان گذرا تھا کہ شیطان کے تابعداروں کی جگہ جہنم ہے ۔ اس لئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ کفار کے لئے سخت عذاب ہے ۔ اس لئے کہ یہ شیطان کے تابع اور رحمان کے نافرمان ہیں ۔ مومنوں سے جو گناہ بھی ہو جائیں بہت ممکن ہے کہ اللہ انہیں معاف فرما دے اور جو نیکیاں ان کی ہیں ان پر انہیں بڑا بھاری اجر و ثواب ملے گا ، کافر اور بدکار لوگ اپنی بد اعمالیوں کو نیکیاں سمجھ بیٹھے ہیں تو ایسے گمراہ لوگوں پر تیرا کیا بس ہے؟ ہدایت و گمراہی اللہ کے ہاتھ ہے ۔ پس تجھے ان پر غمگین نہ ہونا چاہئے ۔ مقدرات اللہ جاری ہو چکے ہیں ۔ مصلحت مالک الملوک کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ ہدایت و ضلالت میں بھی اس کی حکمت ہے کوئی کام اس سچے حکیم کا حکمت سے خالی نہیں ۔ لوگوں کے تمام افعال اس پر واضح ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا پس جس پر وہ نور پڑ گیا وہ دنیا میں آ کر سیدھی راہ چلا اور جسے اس دن وہ نور نہ ملا وہ دنیا میں آ کر بھی ہدایت سے بہرہ ورہ نہ ہو سکا اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ عزوجل کے علم کے مطابق قلم چل کر خشک ہو گیا ۔ ( ابن ابی حاتم ) اور روایت میں ہے کہ ہمارے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا اللہ کے لئے ہر تعریف ہے جو گمراہی سے ہدایت پر لاتا ہے اور جس پر چاہتا ہے گمراہی خلط ملط کر دیتا ہے یہ حدیث بھی بہت ہی غریب ہے ۔