Surah

Information

Surah # 35 | Verses: 45 | Ruku: 5 | Sajdah: 6 | Chronological # 43 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَمَا يَسۡتَوِى الۡاَحۡيَآءُ وَلَا الۡاَمۡوَاتُ ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسۡمِعُ مَنۡ يَّشَآءُ ۚ وَمَاۤ اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ مَّنۡ فِى الۡقُبُوۡرِ‏ ﴿22﴾
اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے اللہ تعالٰی جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں ۔
و ما يستوي الاحياء و لا الاموات ان الله يسمع من يشاء و ما انت بمسمع من في القبور
And not equal are the living and the dead. Indeed, Allah causes to hear whom He wills, but you cannot make hear those in the graves.
Aur zinday aur murday barabar nahi hosaktay Allah Taalaa jiss ko chahata hai suna deta hai aur aap unn logo ko nahi suna saktay jo qabron mein hain.
اور زندہ لوگ اور مردے برابر نہیں ہوسکتے ، اور اللہ تو جس کو چاہتا ہے بات سنا دیتا ہے ، اور تم ان کو بات نہیں سنا سکتے جو قبروں میں پڑے ہیں ۔ ( ٧ )
اور برابر نہیں زندے اور مردے ( ف٦۰ ) بیشک اللہ سناتا ہے جسے چاہے ( ف٦۱ ) اور تم نہیں سنانے والے انہیں جو قبروں میں پڑے ہیں ( ف٦۲ )
اور نہ زندے اور مردے مساوی42 ہیں ۔ اللہ جسے چاہتا ہے سنوارنا ہے ، مگر ( اے نبی ) تم ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں مدفون 43 ہیں ۔
اور نہ زندہ لوگ اور نہ مُردے برابر ہو سکتے ہیں ، بیشک اﷲ جسے چاہتا ہے سنا دیتا ہے ، اور آپ کے ذِمّے اُن کو سنانا نہیں جو قبروں میں ( مدفون مُردوں کی مانند ) ہیں ( یعنی آپ کافروں سے اپنی بات قبول کروانے کے ذمّہ دار نہیں ہیں ) ٭
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :42 ان تمثیلات میں مومن اور کافر کے حال اور مستقبل کا فرق بتایا گیا ہے ۔ ایک وہ شخص ہے جو حقائق سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے اور کچھ نہیں دیکھتا کہ کائنات کا سارا نظام اور خود اس کا اپنا وجود صداقت کی طرف اشارے کر رہا ہے ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ صاف دیکھ رہا ہے کہ اس کے باہر اور اندر کی ہر چیز خدا کی توحید اور اس کے حضور انسان کی جوابدہی پر گواہی دے رہی ہے ۔ ایک وہ شخص ہے جو جاہلانہ اوہام اور مفروضات و قیاسات کی تاریکیوں میں بھٹک رہا ہے اور پیغمبر کی روشن کی ہوئی شمع کے قریب بھی پھٹکنے کے لیے تیار نہیں ۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کی آنکھیں کھلی ہیں اور پیغمبر کی پھیلائی ہوئی روشنی سامنے آتے ہی اس پر یہ بات بالکل عیاں ہو گئی ہے کہ مشرکین اور کفار اور دہریے جن راہوں پر چل رہے ہیں وہ سب تباہی کی طرف جاتی ہیں اور فلاح کی راہ صرف وہ ہے جو خدا کے رسول نے دکھائی ہے ۔ اب آخر یہ کیونکر ممکن ہے کہ دنیا میں ان دونوں کا رویہ یکساں ہو اور دونوں ایک ساتھ ایک ہی راہ پر چل سکیں؟ اور آخر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ دونوں کا انجام یکساں ہو اور دونوں ہی مر کر فنا ہو جائیں ، نہ ایک کو بد راہی کی سزا ملے ، نہ دوسرا راست روی کا کوئی انعام پائے؟ ٹھنڈی چھاؤں اور دھوپ کی تپش ایک جیسی نہیں ہے کا اشارہ اسی انجام کی طرف ہے کہ ایک اللہ کے سایہ رحمت میں جگہ پانے والا ہے اور دوسرا جہنم کی تپش میں جھلسنے والا ہے ۔ تم کس خیال خام میں مبتلا ہو کہ آخر کار دونوں ایک ہی انجام سے دوچار ہوں گے ۔ آخر میں مومن کو زندہ سے اور ہٹ دھرم کافروں کو مردہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ یعنی مومن وہ ہے جس کے اندر احساس و ادراک اور فہم و شعور موجود ہے اور اس کا ضمیر اسے بھلے اور برے کی تمیز سے ہر وقت آگاہ کر رہا ہے ۔ اور اس کے بر عکس جو شخص کفر کے تعصب میں پوری طرح غرق ہو چکا ہے اس کا حل اس اندھے سے بھی بدتر ہے جو تاریکی میں بھٹک رہا ہو ، اس کی حالت تو اس مردے کی سی ہے جس میں کوئی حس باقی نہ رہی ہو ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :43 یعنی اللہ کی مشیت کی تو بات ہی دوسری ہے ، وہ چاہے تو پتھروں کو سماعت بخش دے ، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس کا یہ کام نہیں ہے کہ جن لوگوں کے سینے ضمیر کے مدفن بن چکے ہوں ان کے دلوں میں اپنی بات اتار سکے اور جو بات سننا ہی نہ چاہتے ہوں ان کے بہرے کانوں کو صدائے حق سنا سکے ۔ وہ تو انہی لوگوں کو سنا سکتا ہے جو معقول بات پر کان دھرنے کے لیے تیار ہوں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :44 یعنی تمہارا کام لوگوں کو خبردار کر دینے سے زائد کچھ نہیں ہے ۔ اس کے بعد اگر کوئی ہوش میں نہیں آتا اور اپنی گمرا ہیوں ہی میں بھٹکتا رہتا ہے تو اس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ۔ اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی خدمت تمہارے سپرد نہیں کی گئی ہے ۔