Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
قَالُـوۡۤا اِنَّا تَطَيَّرۡنَا بِكُمۡۚ لَٮِٕنۡ لَّمۡ تَنۡتَهُوۡا لَنَرۡجُمَنَّكُمۡ وَلَيَمَسَّنَّكُمۡ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِيۡمٌ‏ ﴿18﴾
انہوں نے کہا کہ ہم تو تم کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم پتھروں سے تمہارا کام تمام کر دیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی ۔
قالوا انا تطيرنا بكم لىن لم تنتهوا لنرجمنكم و ليمسنكم منا عذاب اليم
They said, "Indeed, we consider you a bad omen. If you do not desist, we will surely stone you, and there will surely touch you, from us, a painful punishment."
Unhon ney kaha kay hum to tum ko manhoos samajhtay hain. Agar tum baaz na aaye to hum pathron say tumhara kaam tamam ker den gay aur tum ko humari taraf say sakht takleef phonchay gi.
بستی والوں نے کہا : ہم نے تو تمہارے اندر نحوست محسوس کی ہے ۔ ( ٦ ) یقین جانو اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم پر پتھر برسائیں گے ، اور ہمارے ہاتھوں تمہیں بڑی دردناک سزا ملے گی ۔
بولے ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں ( ف۲۰ ) بیشک اگر تم باز نہ آئے ( ف۲۱ ) تو ضرور ہم تمہیں سنگسار کریں گے بیشک ہمارے ہاتھوں تم پر دکھ کی مار پڑے گی ،
بستی والے کہنے لگے ہم تو تمہیں اپنے لیے فال بد سمجھتے 14 ہیں ۔ اگر تم باز نہ آئے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور ہم سے تم بڑی دردناک سزا پاؤ گے ۔
۔ ( بستی والوں نے ) کہا: ہمیں تم سے نحوست پہنچی ہے اگر تم واقعی باز نہ آئے تو ہم تمہیں یقیناً سنگ سار کر دیں گے اور ہماری طرف سے تمہیں ضرور دردناک عذاب پہنچے گا
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :14 اس سے ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ تم ہمارے لیے منحوس ہو ، تم نے آ کر ہمارے معبودوں کے خلاف جو باتیں کرنی شروع کی ہیں ان کی وجہ سے دیوتا ہم سے ناراض ہو گئے ہیں ، اور اب جو آفت بھی ہم پر نازل ہو رہی ہے وہ تمہاری بدولت ہی ہو رہی ہے ۔ ٹھیک یہی باتیں عرب کے کفار و منافقین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کرتے تھے ۔ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَ ، اگر انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تمہاری بدولت ہے ( النساء:77 ) ۔ اسی لیے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایسی ہی جاہلانہ باتیں قدیم زمانے کے لوگ بھی اپنے انبیاء کے متعلق کہتے رہے ہیں ۔ قوم ثمود اپنے نبی سے کہتی تھی اِطَّیَّرْنَا بِکَ وَ بِمَنْ مَّعَکَ ، ہم نے تم کو اور تمہارے ساتھیوں کو منحوس پایا ہے ۔ ( النمل : 47 ) اور یہی رویہ فرعون کی قوم کا بھی تھا کہ فَاِذَا جَآءَتْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَاِنْ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوْا بِمُوسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ ۔ جب ان پر اچھی حالت آتی تو کہتے کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے ، اور اگر کوئی مصیبت ان پر آ پڑتی تو اسے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے ( الا عراف: 130 )
انبیاء و رسل سے کافروں کا رویہ ٭ ان کافروں نے ان رسولوں سے کا کہ تمہارے آنے سے ہمیں کوئی برکت و خیریت تو ملی نہیں ۔ بلکہ اور برائی اور بدی پہنچی ۔ تم ہو ہی بدشگون اور تم جہاں جاؤ گے بلائیں برسیں گی ۔ سنو اگر تم اپنے اس طریقے سے باز نہ آئے اور یہی کہتے رہے تو ہم تمہیں سنگسار کر دیں گے ۔ اور سخت المناک سزائیں دیں گے رسولوں نے جواب دیا کہ تم خود بدفطرت ہو ۔ تمہارے اعمال ہی برے ہیں اور اسی وجہ سے تم پر مصیبتیں آتی ہیں ۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔ یہی بات فرعونیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے مومنوں سے کہی تھی ۔ جب انہیں کوئی راحت ملتی توکہتے ہم تو اس کے مستحق ہی تھے ۔ اور اگر کوئی رنج پہنچتا تو حضرت موسی اور مومنوں کی بدشگونی پر اسے محمول کرتے ۔ جس کے جواب میں جناب باری نے فرمایا یعنی ان کی مصیبتوں کی وجہ ان کے بد اعمال ہیں جن کا وبال ہماری جانب سے انہیں پہنچ رہا ہے ۔ قوم صالح نے بھی اپنے نبی سے یہی کہا تھا اور یہی جواب پایا تھا ۔ خود جناب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی کہا گیا ہے جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے یعنی اگر ان کافروں کو کوئی نفع ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے تہ کہدیجیے کہ سب کچھ اللہ کی جانب سے ہے ۔ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ ان سے یہ بات بھی نہیں سمجھی جاتی؟ پھر فرماتا ہے کہ صرف اس وجہ سے کہ ہم نے تمہیں نصیحت کی ، تمہاری خیر خواہی کی ، تمہیں بھلی راہ سمجھائی ۔ تمہیں اللہ کی توحید کی طرف رہنمائی کی تمہیں اخلاص و عبادت کے طریقے سکھائے تم ہمیں منحوس سمجھنے لگے؟ اور ہمیں اس طرح ڈرانے دھمکانے لگے؟ اور خوفزدہ کرنے لگے؟ اور مقابلہ پر اتر آئے؟ حقیقت یہ ہے کہ تم فضول خرچ لوگ ہو ۔ حدود الہیہ سے تجاوز کر جاتے ہو ۔ ہمیں دیکھو کہ ہم تمہاری بھلائی چاہیں ۔ تمہیں دیکھو کہ تم ہم سے برائی سمجھو ۔ بتاؤ تو بھلا یہ کوئی انصاف کی بات ہے؟ افسوس تم انصاف کے دائرے سے نکل گئے ۔