Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
وَاِذۡ اَخَذَ اللّٰهُ مِيۡثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيۡتُكُمۡ مِّنۡ كِتٰبٍ وَّحِكۡمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمۡ رَسُوۡلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمۡ لَـتُؤۡمِنُنَّ بِهٖ وَلَـتَـنۡصُرُنَّهٗ ‌ؕ قَالَ ءَاَقۡرَرۡتُمۡ وَاَخَذۡتُمۡ عَلٰى ذٰ لِكُمۡ اِصۡرِىۡ‌ؕ قَالُوۡۤا اَقۡرَرۡنَا ‌ؕ قَالَ فَاشۡهَدُوۡا وَاَنَا مَعَكُمۡ مِّنَ الشّٰهِدِيۡنَ‏ ﴿81﴾
جب اللہ تعالٰی نے نبیوں سے عہد لیا کہ جو کچھ میں تمہیں کتاب و حکمت سے دوں پھر تمہارے پاس وہ رسول آئے جو تمہارے پاس کی چیز کو سچ بتائے تو تمہارے لئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا ضروری ہے ۔ فرمایا کہ تم اس کے اقراری ہو اور اس پر میرا ذمّہ لے رہے ہو؟ سب نے کہا کہ ہمیں اقرار ہے ، فرمایا تو اب گواہ رہو اور خود میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ۔
و اذ اخذ الله ميثاق النبين لما اتيتكم من كتب و حكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به و لتنصرنه قال ءاقررتم و اخذتم على ذلكم اصري قالوا اقررنا قال فاشهدوا و انا معكم من الشهدين
And [recall, O People of the Scripture], when Allah took the covenant of the prophets, [saying], "Whatever I give you of the Scripture and wisdom and then there comes to you a messenger confirming what is with you, you [must] believe in him and support him." [ Allah ] said, "Have you acknowledged and taken upon that My commitment?" They said, "We have acknowledged it." He said, "Then bear witness, and I am with you among the witnesses."
Jab Allah Taalaa ney nabiyon say ehad liya kay jo kuch mein tumhen kitab-o-hikmat doon phir tumharay pass woh rasool aaye jo tumharay pass ki cheez ko sach bataye to tumharay liye uss per eman lana aur uss ki madad kerna zaroori hai. Farmaya kay tum iss kay iqrari ho aur iss per mera zimma ley rahey ho? Sab ney kaha humen iqrar hai farmaya to abb gawah raho aur khud mein bhi tumharay sath gawahon mein hun.
اور ( ان کو وہ وقت یاد دلاؤ ) جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں ، پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس ہے ، تو تم اس پر ضرور ایمان لاؤ گے ، اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ اللہ نے ( ان پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا : ہم اقرار کرتے ہیں ۔ اللہ نے کہا : تو پھر ( ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ، اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل ہوں ۔
اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا ( ف۱۵۵ ) جو میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول ( ف۱۵٦ ) کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے ( ف۱۵۷ ) تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ، فرمایا کیوں تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا ؟ سب نے عرض کی ، ہم نے اقرار کیا ، فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں ،
یاد کرو ، اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ : آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا ہے ، کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے ، تو تم کو اس پر ایمان لانا ہوگا اور اس کی مدد کرنی ہوگی ۔ 69 یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں ہم اقرار کرتے ہیں ۔
اور ( اے محبوب! وہ وقت یاد کریں ) جب اﷲ نے انبیاءسے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ ( سب پر عظمت والا ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے ، فرمایا: کیا تم نے اِقرار کیا اور اس ( شرط ) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا: ہم نے اِقرار کر لیا ، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :69 مطلب یہ ہے کہ ہر پیغمبر سے اس امر کا عہد لیا جاتا رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو عہد پیغمبر سے لیا گیا ہو وہ لامحالہ اس کی پیرووں پر بھی آپ سے آپ عائد ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ جو نبی ہماری طرف سے اس دین کی تبلیغ و اقامت کے لیے بھیجا جائے جس کی تبلیغ و اقامت پر تم مامور ہوئے ہو ، اس کا تمہیں ساتھ دینا ہو گا ۔ اس کے ساتھ تعصب نہ برتنا ، اپنے آپ کو دین کا اجارہ دار نہ سمجھنا ، حق کی مخالفت نہ کرنا ، بلکہ جہاں جو شخص بھی ہماری طرف سے حق کا پرچم بلند کرنے کے لیے اٹھایا جائے اس کے جھنڈے تلے جمع ہو جانا ۔ یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی امت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن نہ قرآن میں نہ حدیث میں ، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا عہد لیا گیا ہو یا آپ نے اپنی امت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو ۔
انبیاء سے عہد و میثاق یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک کے تمام انبیاء کرام سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ لیا کہ جب کبھی ان میں سے کسی کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کتاب و حکمت دے اور وہ بڑے مرتبے تک پہنچ جائے پھر اس کے بعد اسی کے زمانے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم آجائے تو اس پر ایمان لانا اور اس کی نصرت و امداد کرنا اس کا فرض ہو گا یہ نہ ہو کہ اپنے علم و نبوت کی وجہ سے اپنے بعد والے نبی کی اتباع اور امداد سے رک جائے ، پھر ان سے پوچھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اور اسی عہد و میثاق پر مجھے ضامن ٹھہراتے ہو ۔ سب نے کہا ہاں ہمارا اقرار ہے تو فرمایا گواہ رہو اور میں خود بھی گواہ ہوں ۔ اب اس عہد و میثاق سے جو پھر جائے وہ قطعی فاسق ، بےحکم اور بدکار ہے ، حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں٠ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے عہد لیا کہ اس کی زندگی میں اگر اللہ تعالیٰ اپنے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجے تو اس پر فرض ہے کہ وہ آپ پر ایمان لائے اور آپ کی امداد کرے اور اپنی امت کو بھی وہ یہی تلقین کرے کہ وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کی تابعداری میں لگ جائے ، طاؤس حسن بصری اور قتادہ فرماتے ہیں نبیوں سے اللہ نے عہد لیا کہ ایک دوسرے کی تصدیق کریں ، کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ تفسیر اوپر کی تفسیر کے خلاف ہے بلکہ یہ اس کی تائید ہے اسی لئے حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے لڑکے کی روایت مثل روایت حضرت علی اور ابن عباس کے بھی مروی ہے ۔ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ میں نے ایک دوست قریظی یہودی سے کہا تھا کہ وہ تورات کی جامع باتیں مجھے لکھ دے اگر آپ فرمائیں تو میں انہیں پیش کروں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہو گیا ۔ حضرت عبداللہ ثابت نے کہا کہ تم نہیں دیکھتے کہ آپ کے چہرہ کا کیا حال ہے؟ تو حضرت عمر کہنے لگے میں اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر محمد کے رسول ہونے پر خوش ہوں ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دور ہوا اور فرمایا قسم ہے اس اللہ تعالیٰ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر حضرت موسیٰ تم میں آجائیں اور تم ان کی تابعداری میں لگ جاؤ اور مجھے چھوڑ دو تو تم سب گمراہ ہو جاؤ تمام امتوں میں سے میرے حصے کی امت تم ہو اور تمام نبیوں میں سے تمہارے حصے کا نبی میں ہوں ، مسند ابو یعلی میں لکھا ہے اہل کتاب سے کچھ نہ پوچھو وہ خود گمراہ ہیں تو تمہیں راہ راست کیسے دکھائیں گے بلکہ ممکن ہے تم کسی باطل کی تصدیق کر لو یا حق کی تکذیب کر بیٹھو اللہ کی قسم اگر موسیٰ بھی تم میں زندہ موجود ہوتے تو انہیں بھی بجز میری تابعداری کے اور کچھ حلال نہ تھا ، بعض احادیث میں ہے اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا ، پس ثابت ہوا کہ ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور امام اعظم ہیں جس زمانے میں بھی آپ کی نبوت ہوتی آپ واجب الاطاعت تھے اور تمام انبیاء کی تابعداری پر جو اس وقت ہوں آپ کی فرمانبرداری مقدم رہتی ، یہی وجہ تھی کہ معراج والی رات بیت المقدس میں تمام انبیاء کے امام آپ ہی بنائے گئے ، اسی طرح میدان محشر میں بھی اللہ تعالیٰ کی فیصلوں کو انجام تک پہنچانے میں آپ ہی شفیع ہوں گے یہی وہ مقام محمود ہے جو آپ کے سوا اور کو حاصل نہیں تمام انبیاء اور کل رسول اس دن اس کام سے منہ پھیر لیں گے بالاخر آپ ہی خصوصیت کے ساتھ اس مقام میں کھڑے ہوں گے ، اللہ تعالیٰ اپنے درود و سلام آپ پر ہمیشہ ہمیشہ بھیجتا رہے قیامت کے دن تک آمین ۔