Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
سُبۡحٰنَ الَّذِىۡ خَلَقَ الۡاَزۡوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنۡۢبِتُ الۡاَرۡضُ وَمِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَمِمَّا لَا يَعۡلَمُوۡنَ‏ ﴿36﴾
وہ پاک ذات ہے جس نے ہرچیز کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں ، خواہ خود ان کے نفوس ہوں ، خواہ وہ ( چیزیں ) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں ۔
سبحن الذي خلق الازواج كلها مما تنبت الارض و من انفسهم و مما لا يعلمون
Exalted is He who created all pairs - from what the earth grows and from themselves and from that which they do not know.
Woh pak zaat hai jiss ney her cheez kay joray peda kiye khua woh zamin ki ugaee hui cheezen hon khua khud unkay nafoos hon khua woh ( cheezen ) hon jinhen yeh jantay bhi nahi.
پاک ہے وہ ذات جس نے ہر چیز کے جوڑے جوڑے پیدا کیے ہیں ، اس پیداوار کے بھی جو زمین اگاتی ہے ، اور خود انسانوں کے بھی ، اور ان چیزوں کے بھی جنہیں یہ لوگ ( ابھی ) جانتے تک نہیں ہیں ۔ ( ١٣ )
پاکی ہے اسے جس نے سب جوڑے بنائے ( ف٤۳ ) ان چیزوں سے جنہیں زمین اگاتی ہے ( ف٤٤ ) اور خود ان سے ( ف٤۵ ) اور ان چیزوں سے جن کی انہیں خبر نہیں ( ف٤٦ )
پاک ہے وہ ذات 30 جس نے جملہ اقسام کے جوڑے پیدا کیے خواہ وہ زمین کی نباتات میں سے ہوں یا خود ان کی اپنی جنس ( یعنی نوع انسانی ) میں سے یا ان اشیاء میں سے جن کو یہ جانتے تک نہیں ہیں 31
پاک ہے وہ ذات جس نے سب چیزوں کے جوڑے پیدا کئے ، ان سے ( بھی ) جنہیں زمین اگاتی ہے اور خود اُن کی جانوں سے بھی اور ( مزید ) ان چیزوں سے بھی جنہیں وہ نہیں جانتے
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :30 یعنی ہر شائبہ نقص و عیب سے پاک ، ہر غلطی اور کمزوری سے پاک ، اور اس بات سے پاک کہ کوئی اس کا شریک و سہیم ہو ۔ مشرکین کے عقائد کی تردید کرتے ہوئے بالعموم قرآن مجید میں یہ الفاظ اس لیے استعمال کیے جاتے ہیں کہ شرک کا ہر عقیدہ اپنی حقیقت میں اللہ تعالیٰ پر کسی نہ کسی نقص اور کسی نہ کسی کمزوری اور عیب کا الزام ہے ۔ اللہ کے لیے شریک تجویز کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ایسی بات کہنے والا دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یا تو اللہ تعالیٰ تنہا اپنی خدائی کا کام چلانے کے قابل نہیں ہے ، یا وہ مجبور ہے کہ اپنی خدائی میں کسی دوسرے کو شریک کرے ، یا کچھ دوسری ہستیاں آپ سے آپ ایسی طاقتور ہیں کہ وہ خدائی کے نظام میں دخل دے رہی ہیں اور خدا ان کی مداخلت برداشت کر رہا ہے ، یا معاذ اللہ وہ انسانی بادشاہوں کی سی کمزوریاں رکھتا ہے جن کی بنا پر وزیروں ، درباریوں منہ چڑھے مصاحبوں ، اور چہیتے شہزادوں اور شہزادیوں کا ایک لشکر کا لشکر اسے گھیرے ہوئے ہے اور خدائی کے بہت سے اختیارات ان کے درمیان ہٹ کر رہ گئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ جاہلانہ تصورات اگر ذہنوں میں موجود نہ ہوتے تو سرے سے شرک کا خیال پیدا ہی نہ ہو سکتا تھا ۔ اسی لیے قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک اور منزہ ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :31 یہ توحید کے حق میں ایک اور استدلال ہے ، اور یہاں پھر پیش پا افتادہ حقائق ہی میں سے بعض کو لے کر بتایا جا رہا ہے کہ شب و روز جن اشیاء کا تم مشاہدہ کرتے اور یونہی غور و خوض کیے بغیر گزر جاتے ہو ان ہی کے اندر حقیقت کا سراغ دینے والے نشانات موجود ہیں ۔ عورت اور مرد کا جوڑ تو خود انسان کا اپنا سبب پیدائش ہے ۔ حیوانات کی نسلیں بھی نر و مادہ کے ازدواج سے چل رہی ہیں ۔ نباتات کے متعلق بھی انسان جانتا ہے کہ ان میں تزویج کا اصول کام کر رہا ہے ۔ حتیٰ کہ بے جان مادوں تک میں مختلف اشیاء جب ایک دوسرے سے جوڑ کھاتی ہیں تب کہیں ان سے طرح طرح کے مرکبات وجود میں آتے ہیں ۔ خود مادے کی بنیادی ترکیب منفی اور مثبت برقی توانائی کے ارتباط سے ہوئی ہے ۔ یہ تزویج ، جس کی بدولت یہ ساری کائنات وجود میں آئی ہے ، حکمت و صناعی کی ایسی باریکیاں اور پیچیدگیاں رکھتی ہے اور اس کے اندر ہر دو زوجین کے درمیان ایسی مناسبتیں پائی جاتی ہیں کہ بے لاگ عقل رکھنے والا کوئی شخص نہ تو اس چیز کو ایک اتفاقی حادثہ کہہ سکتا ہے کہ مختلف خداؤں نے ان بے شمار ازواج کو پیدا کر کے ان کے درمیان اس حکمت کے ساتھ جوڑ لگائے ہوں گے ۔ ازواج کا ایک دوسرے کے لیے جوڑ ہونا اور ان کے ازدواج سے نئی چیزوں کا پیدا ہونا خود وحدت خالق کی صریح دلیل ہے ۔