Surah

Information

Surah # 36 | Verses: 83 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 41 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD). Except 45, from Madina
لِيَاۡكُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِهٖ ۙ وَمَا عَمِلَـتۡهُ اَيۡدِيۡهِمۡ‌ ؕ اَفَلَا يَشۡكُرُوۡنَ‏ ﴿35﴾
تاکہ ( لوگ ) اس کے پھل کھائیں اور اس کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا ۔ پھر کیوں شکر گزاری نہیں کرتے ۔
لياكلوا من ثمره و ما عملته ايديهم افلا يشكرون
That they may eat of His fruit. And their hands have not produced it, so will they not be grateful?
Takay ( log ) uss kay phal khayen aur iss ki inn kay hathon ney nahi banaya. Phir kiyon shukar guzari nahi kertay.
تاکہ یہ اس کی پیداوار میں سے کھائیں ، حالانکہ اس کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا تھا ۔ ( ١٢ ) کیا پھر بھی یہ شکر نہیں کریں گے ؟
اس کے پھلوں میں سے کھائیں اور یہ ان کے ہاتھ کے بنائے نہیں تو کیا حق نہ مانیں گے ( ف٤۲ )
تاکہ یہ اس کے پھل کھائیں ۔ یہ سب کچھ ان کے اپنے ہاتھوں کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے ۔ 28 پھر کیا یہ شکر ادا نہیں کرتے ؟ 29
تاکہ وہ اس کے پھل کھائیں اور اسے اُن کے ہاتھوں نے نہیں بنایا ، پھر ( بھی ) کیا وہ شکر نہیں کرتے
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :28 اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : تاکہ یہ کھائیں اس کے پھل اور وہ چیزیں جو ان کے اپنے ہاتھ بناتے ہیں ۔ یعنی مصنوعی غذائیں جو قدرتی پیداوار سے یہ لوگ خود تیار کرتے ہیں ، مثلاً روٹی ، سالن ، مُربّے ، اچار ، چٹنیاں اور بے شمار دوسری چیزیں ۔ سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :29 ان مختصر فقروں میں زمین کی روئیدگی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے ۔ آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اپنے نزدیک اسے ایک معمولی بات سمجھتا ہے ۔ لیکن اگر وہ غفلت کا پردہ چاک کر کے نگاہ غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو کہ اس فرش خاک سے لہلہاتی کھیتیوں اس سرسبز باغوں کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی کھیل نہیں ہے جو آپ سے آپ ہوئے جا رہا ہو بلکہ اس کے پیچھے ایک عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کار فرما ہے ۔ زمین کی حقیقت پر غور کیجیے ، جب مادوں سے یہ مرکب ہے ان کے اندر بجائے خود کسی نشو و نما کی طاقت نہیں ہے ۔ یہ سب مادے فرداً فرداً بھی اور ہر ترکیب و آمیزش کے بعد بھی بالکل غیر نامی ہیں اور اس بنا پر ان کے اندر زندگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس بے جان زمیں کے اندر سے بناتی زندگی کا ظہور آخر کیسے ممکن ہوا ؟ اس کی تحقیق آپ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ چند بڑے بڑے اسباب ہیں جو اگر پہلے فراہم نہ کر دیے گئے ہوتے تو یہ زندگی سرے سے وجود میں نہ آ سکتی تھی: اولاً: زمین کے مخصوص خطوں میں اس کی اوپری سطح پر بہت سے ایسے مادوں کی تہ چڑھائی گئی جو نباتات کی غذا بننے کے لیے موزوں ہو سکتے تھے اور اس تہ کو نرم رکھا گیا تاکہ نباتات کی جڑیں اس میں پھیل کر اپنی غذا چوس سکیں ۔ ثانیاً: زمین پر مختلف طریقوں سے پانی کی بہم رسانی کا انتظام کیا گیا تاکہ غذائی مادے اس میں تحلیل ہو کر اس قابل ہوجائیں کہ نباتات کی جڑیں ان کو جذب کرسکیں ۔ ثالثاً: اوپر کی فضا میں ہوا پیدا کی گئی جو آفات سماوی سے زمین کی حفاظت کرتی ہے ، جو بارش لانے کا ذریعہ بنتی ہے ، اور اپنے اندر وہ گیسیں بھی رکھتی ہے جو نباتات کی زندگی اور ان کے نشو و نما کے لیے درکار ہیں ۔ رابعاً: سورج اور زمین کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا کہ نباتات کو مناسب درجۂ حرارت اور موزوں موسم مل سکیں ۔ یہ چار بڑے بڑے اسباب ( جو بجائے خود بے شمار ضمنی اسباب کا مجموعہ ہیں ) جب پیدا کر دیے گئے تب نباتات کا وجود میں آنا ممکن ہوا ۔ پھر یہ ساز گار حالات فراہم کرنے کے بعد نباتات پیدا کیے گئے اور ان میں سے ہر ایک کا تخم ایسا بنایا گیا کہ جب اسے مناسب زمین ، پانی ، ہوا اور موسم میسر آئے تو اس کے اندر نباتی زندگی کی حرکت شروع ہو جائے ۔ مزید برآں اسی تخم میں یہ انتظام بھی کر دیا گیا کہ ہر نوع کے تخم سے لازماً اسی نوع کا بوٹا اپنی تمام نوعی اور موروثی خصوصیات کے ساتھ پیدا ہو ۔ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر کاریگری یہ کی گئی کہ نباتات کی دس بیس یا سو پچاس نہیں بلکہ بے حد و حساب قسمیں پیدا کی گئیں اور ان کو اس طرح بنایا گیا کہ وہ ان بے شمار اقسام کے حیوانات اور بنی آدم کی غذا ، دوا ، لباس اور ان گنت دوسری ضرورتوں کو پورا کر سکیں جنہیں نباتات کے بعد زمین پر وجود میں لایا جا نے والا تھا ۔ اس حیرت انگیز انتظام پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اگر ہٹ دھرمی اور تعصب میں مبتلا نہیں ہے تو اس کا دل گواہی دے گا کہ سب کچھ آپ سے آپ نہیں ہو سکتا ۔ اس میں صریح طور پر ایک حکیمانہ منصوبہ کام کر رہا ہے جس کے تحت زمین ، پانی ، ہوا اور موسم کی مناسبتیں نباتات کے ساتھ ، اور نباتات کی مناسبتیں حیوانات اور انسانوں کی حاجات کے ساتھ انتہائی نزاکتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں ۔ کوئی ہوشمند انسان یہ تصور نہیں کر سکتا کہ ایسی ہمہ گیر مناسبتیں محض اتفاقی حادثہ کے طور پر قائم ہو سکتی ہیں ۔ پھر یہی انتظام اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ یہ بہت سے خداؤں کا کارنامہ نہیں ہو سکتا یہ تو ایک ہی ایسے خدا کا انتظام ہے اور ہو سکتا ہے جو زمین ، ہوا ، پانی ، سورج ، نباتات ، حیوانات اور نوع انسانی ، سب کا خالق و رب ہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے خدا الگ الگ ہوتے تو آخر کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسا جامع ، ہمہ گیر اور گہری حکیمانہ مناسبتیں رکھنے والا منصوبہ بن جاتا اور لاکھوں کروڑوں برس تک اتنی باقاعدگی کے ساتھ چلتا رہتا ۔ توحید کے حق میں یہ استدلال پیش کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ ؟ یعنی کیا یہ لوگ ایسے احسان فراموش اور نمک حرام ہیں کہ جس خدا نے یہ سب کچھ سر و سامان ان کی زندگی کے لیے فراہم کیا ہے ، اس کے شکر گزار نہیں ہوتے اور اس کی نعمتیں کھا کھا کر دوسروں کے شکریے ادا کرتے ہیں ؟ اس کے آگے نہیں جھکتے اور ان جھوٹے معبودوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں جنہوں نے ایک تنکا بھی ان کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ؟