سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :63
خطاب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ اور کھلی اور چھپی باتوں کا اشارہ اس طرف ہے کہ کفار مکہ کے وہ بڑے بڑے سردار جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے تھے ، وہ اپنے دلوں میں جانتے ، اور اپنی نجی محفلوں میں مانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو الزامات وہ لگا رہے ہیں وہ سراسر بے اصل ہیں ۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بد گمان کرنے کے لیے آپ کو شاعر ، کاہن ، ساحر ، مجون اور نہ معلوم کیا کیا کہتے تھے ، مگر خود ان کے ضمیر اس بات کے قائل تھے ، اور آپس میں وہ ایک دوسرے کے سامنے اقرار کرتے تھے کہ سب جھوٹی باتیں ہیں جو محض آپ کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے وہ گھڑ رہے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کی بیہودہ باتوں پر رنجیدہ نہ ہو ۔ سچائی کا مقابلہ جھوٹ سے کرنے والے آخر کار اس دنیا میں بھی ناکام ہوں گے اور آخرت میں بھی اپنا برا انجام دیکھ لیں گے ۔