Surah

Information

Surah # 3 | Verses: 200 | Ruku: 20 | Sajdah: 0 | Chronological # 89 | Classification: Madinan
Revelation location & period: Madina phase (622 - 632 AD)
كَيۡفَ يَهۡدِى اللّٰهُ قَوۡمًا كَفَرُوۡا بَعۡدَ اِيۡمَانِهِمۡ وَشَهِدُوۡۤا اَنَّ الرَّسُوۡلَ حَقٌّ وَّجَآءَهُمُ الۡبَيِّنٰتُ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‏ ﴿86﴾
اللہ تعالٰی ان لوگوں کو کیسے ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے اور رسول کی حقّانیت کی گواہی دینے اور اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد کافر ہو جائیں اللہ تعالٰی ایسے بے انصاف لوگوں کو راہ راست پر نہیں لاتا ۔
كيف يهدي الله قوما كفروا بعد ايمانهم و شهدوا ان الرسول حق و جاءهم البينت و الله لا يهدي القوم الظلمين
How shall Allah guide a people who disbelieved after their belief and had witnessed that the Messenger is true and clear signs had come to them? And Allah does not guide the wrongdoing people.
Allah Taalaa unn logon ko kaisay hidayat dey ga jo apney eman laney aur rasool ko haqqaniyat ki gawahi denay aur apney pass roshan daleel aajaney kay baad kafir hojayen Allah Taalaa aisay bey insaf logon ko raah-e-raast per nahi laata.
اللہ ایسے لوگوں کو کیسے ہدایت دے جنہوں نے ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلیا؟ حالانکہ وہ گوہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچے ہیں ، اور ان کے پاس ( اس کے ) روشن دلائل بھی آچکے تھے ۔ اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔
کیونکر اللہ ایسی قوم کی ہدایت چاہے جو ایمان لاکر کافر ہوگئے ( ف۱٦٦ ) اور گواہی دے چکے تھے کہ رسول ( ف۱٦۷ ) سچا ہے اور انہیں کھلی نشانیاں آچکی تھیں ( ف۱٦۸ ) اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا
کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ ان لوگوں کو ہدایت بخشے جنہوں نے نعمت ایمان پا لینے کے بعد پھر کفر اختیار کیا حالانکہ وہ خود اس بات پر گواہی دے چکے ہیں کہ یہ رسول حق پر ہے اور ان کے پاس روشن نشانیاں بھی آچکی ہیں ۔ 73 اللہ ظالموں کو تو ہدایت نہیں دیا کرتا ۔
اﷲ ان لوگوں کو کیونکر ہدایت فرمائے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے حالانکہ وہ اس امر کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آچکی تھیں ، اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :73 یہاں پھر اسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے قبل بارہا بیان کی جا چکی ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عرب کے یہودی علماء جان چکے تھے اور ان کی زبانوں تک سے اس امر کی شہادت ادا ہو چکی تھی کہ آپ نبی برحق ہیں اور جو تعلیم آپ لائے ہیں وہ وہی تعلیم ہے جو پچھلے انبیاء لا تے رہے ہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ محض تعصب ، ضد اور دشمنی حق کی اس پرانی عادت کا نتیجہ تھا جس کے وہ صدیوں سے مجرم چلے آرہے تھے ۔
توبہ اور قبولیت حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں ایک انصار مرتد ہو کر مشرکین میں جا ملا پھر پچھتانے لگا اور اپنی قوم سے کہلوایا کہ رسول اللہ صلعم سے دریافت کرو کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ ان کے دریافت کرنے پر یہ آیتیں اتریں اس کی قوم نے اسے کہلوا بھیجا وہ پھر توبہ کر کے نئے سرے سے مسلمان ہو کر حاضر ہو گیا ( ابن جریر ) نسائی حاکم اور ابن حبان میں بھی یہ روایت موجود ہے امام حاکم اسے صحیح الاسناد کہتے ہیں ، مسند عبدالرزاق میں ہے کہ حارث بن سوید نے اسلام قبول کیا پھر قوم میں مل گیا اور اسلام سے پھر گیا اس کے بارے میں یہ آیتیں اتریں اس کی قوم کے ایک شخص نے یہ آیتیں اسے پڑھ کر سنائیں تو اس نے کہا جہاں تک میرا خیال ہے اللہ کی قسم تو سچا ہے اور اللہ کے نبی تو تجھ سے بہت ہی زیادہ سچے ہیں اور اللہ تعالیٰ سب سچوں سے زیادہ سچا ہے پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آئے اسلام لائے اور بہت اچھی طرح اسلام کو نبھایا بینات سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق پر حجتوں اور دلیلوں کا بالکل واضح ہو جانا ہے پس جو لوگ ایمان لائے رسول کی حقانیت مان چکے دلیلیں دیکھ چکے پھر شرک کے اندھیروں میں جا چھپے یہ لوگ مستحق ہدایت نہیں کیونکہ آنکھوں کے ہوتے ہوئے اندھے پن کو انہوں نے پسند کیا اللہ تعالیٰ ناانصاف لوگوں میں رہبری نہیں کرتا ، انہیں اللہ لعنت کرتا ہے اور اس کی مخلوق بھی ہمیشہ لعنت کرتی ہے نہ تو کسی وقت ان کے عذاب میں تخفیف ہو گی نہ موقوفی ۔ پھر اپنا لطف و احسان رافت و رحمت کا بیان فرماتا ہے کہ اس بدترین جرم کے بعد بھی جو میری طرف جھکے اور اپنے بداعمال کی اصلاح کر لے میں بھی اس سے درگذر کر لیتا ہوں ۔