Surah

Information

Surah # 37 | Verses: 182 | Ruku: 5 | Sajdah: 0 | Chronological # 56 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
وَاِنَّ اِلۡيَاسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَؕ‏ ﴿123﴾
بیشک الیاس ( علیہ السلام ) بھی پیغمبروں میں سے تھے ۔
و ان الياس لمن المرسلين
And indeed, Elias was from among the messengers,
Be-shak ilyas ( alh-e-salam ) bhi payghumbaron mein say thay.
اور الیاس بھی یقینا پیغمبروں میں سے تھے ۔ ( ٢٣ )
اور بیشک الیاس پیغمبروں سے ہے ( ف۱۱٤ )
اور الیاس بھی یقینا مرسلین میں سے تھا 70 ۔
اور یقیناً الیاس ( علیہ السلام بھی ) رسولوں میں سے تھے
سورة الصّٰٓفّٰت حاشیہ نمبر :70 حضرت الیاس علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے ۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں صرف دو ہی مقامات پر آیا ہے ۔ ایک یہ مقام اور دوسرا سورہ انعام آیت 85 ۔ موجودہ زمانہ کے محققین ان کا زمانہ 875 اور 850 قبل مسیح کے درمیان متعین کرتے ہیں ۔ وہ جِلْعاد کے رہنے والے تھے ( قدیم زمانہ میں جِلْعاد اس علاقے کو کہتے تھے جو آج کل موجودہ ریاست اردن کے شمالی اضلاع پر مشتمل ہے اور دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے ۔ ) بائیبل میں ان کا ذکر ایلیاہ تشبِی ( Elijah the Tishbite ) کے ناک سے کیا گیا ہے ۔ ان کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں : حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رجُبْعام ( Rehoboam ) کی نااہلی کے باعث بنی اسرائیل کی سلطنت کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے ۔ ایک حصہ جو بیت المقدس اور جنوبی فلسطین پر مشتمل تھا ، آل داؤد کے قبضے میں رہا ، اور دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہو گئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا ۔ اگرچہ حالات دونوں ہی ریاستوں کے دگرگوں تھے ، لیکن اسرائیل کی ریاست شروع ہی سے سخت بگاڑ کی راہ پر چل پڑی تھی جس کی بدولت اس میں شرک و بت پرستی ، ظلم و ستم اور فسق و فجور کا زور بڑھتا چلا گیا ، یہاں تک کہ جب اسرائیل کے بادشاہ اخی اب ( Ahab ) نے صیدا ( موجودہ لبنان ) کے بادشاہ کی لڑکی ایزبل ( Iazebel ) سے شادی کر لی تو یہ فساد اپنی انتہا کو پہنچ گیا ۔ اس مشرک شہزادی کے اثر میں آ کر اخی اب خود بھی مشرک ہو گیا ، اس نے سامریہ میں بعل کا مندر اور مذبح تعمیر کیا ، خدائے واحد کی پرستش کے بجائے بعل کی پرستش رائج کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اسرائیل کے شہروں میں علانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں ۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت الیاس علیہ السلام یکایک منظر عام پر نمودار ہوئے اور انہوں نے جلعاد سے آ کر اخی اب کو نوٹس دیا کہ تیرے گناہوں کی پاداش میں اب اسرائیل کے ملک پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے گا ، حتیٰ کہ اوس تک نہ پڑے گی ۔ خدا کے نبی کا یہ قول حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور ساڑھے تین سال تک بارش بالکل بند رہی ۔ آخر کار اخی اب کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے حضرت الیاس کو تلاش کرا کے بلوایا ۔ انہوں نے بارش کے لیے دعا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اسرائیل کے باشندوں کو اللہ رب العالمین اور بعل کا فرق اچھی طرح بتا دیں ۔ اس غرض کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ ایک مجمع عام میں بعل کے پوجاری بھی آ کر اپنے معبود کے نام پر قربانی کریں اور میں بھی اللہ رب العلمین کے نام پر قربانی کروں گا ۔ دونوں میں سے جس کی قربانی بھی انسان کے ہاتھوں سے آگ لگائے بغیر غیبی آگ سے بھسم ہو جائے اس کے معبود کی سچائی ثابت ہو جائے گی ۔ اخی اب نے یہ بات قبول کر لی ۔ چنانچہ کوہ کرمل ( Carmel ) _ پر بعل کے ساڑھے آٹھ سو پجاری جمع ہوئے اور اسرائیلیوں کے مجمع عام میں ان کا اور حضرت الیاس علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اس مقابلے میں بعل پرستوں نے شکست کھائی اور حضرت الیاس نے سب کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ بعل ایک جھوٹا خدا ہے ، اصل خدا وہی ایک اکیلا خدا ہے جس کے نبی کی حیثیت سے وہ مامور ہو کر آئے ہیں ۔ اس کے بعد حضرت الیاس نے اسی مجمع عام میں بعل کے پجاریوں کو قتل کر ا دیا اور پھر بارش کے لیے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی یہاں تک کہ پورا ملک اسرائیل سیراب ہو گیا ۔ لیکن معجزات کو دیکھ کر بھی زن مرید اخی اب اپنی بت پرست بیوی کے شکنجے سے نہ نکلا ۔ اس کی بیوی ایزبل حضرت الیاس کی دشمن ہو گئی اور اس نے قسم کھا لی کہ جس طرح بعل کے پجاری قتل کیے گئے ہیں اسی طرح الیاس علیہ السلام بھی قتل کیے جائیں گے ۔ ان حالات میں حضرت الیاس کو ملک چھوڑنا پڑا اور چند سال تک وہ کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزیں رہے ۔ اس موقع پر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو فریاد کی تھی اسے بائیبل ان الفاظ میں نقل کرتی ہے : بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ۔ ( 1 ۔ سلاطین 10:19 ) اسی زمانے میں بیت المقدس کی یہودی ریاست کے فرمانروا یہورام ( Jehoram ) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس مشرک شہزادی کے اثر سے وہی تمام خرابیاں جو اسرائیل میں پھیلی ہوئی تھیں ، یہودیہ کی ریاست میں بھی پھیلنے لگیں ۔ حضرت الیاس نے یہاں بھی فریضۂ نبوت ادا کیا اور یہورام کو ایک خط لکھا جس کے یہ الفاظ بائیبل میں نقل ہوئے ہیں : خداوند تیرے باپ داؤد کا خدا یوں فرماتا ہے : اس لیے کہ تو نہ اپنے باپ یہوسفط کی راہوں پر اور نہ یہوواہ کے بادشاہ آسا کی راہوں پر چلا بلکہ اسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا ہے اور یہوواہ اور یروشلم کے باشندوں کو زنا کار بنایا جیسا اخی اب کے خاندان نے کیا تھا اور اپنے باپ کے گھرانے میں سے اپنے بھائیوں کو جو تجھ سے اچھے تھے قتل بھی کیا ، سو دیکھ خداوند تیرے لوگوں کو اور تیری بیویوں کو اور تیرے سارے مال کو بڑی آفتوں سے مارے گا اور تو انتڑیوں کے مرض سے سخت بیمار ہو جائے گا یہاں تک کہ تیری انتڑیاں اس مرض کے سبب سے روز بروز نکلتی چلی جائیں گی ( 2 ۔ تواریخ 21:12 ۔ 15 ) اس خط میں حضرت الیاس نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہوا ۔ پہلے یہورام کی ریاست بیرونی حملہ آوروں کی تاخت سے تباہ ہوئی اور اس کی بیویوں تک کو دشمن پکڑ لے گئے ، پھر وہ خود انتڑیوں کے مرض سے ہلاک ہوا ۔ چند سال کے بعد حضرت الیاس پھر اسرائیل تشریف لے گئے اور انہوں نے اخی اب کو ، اور اس کے بعد اس کے بیٹے اَخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی مسلسل کوشش کی ، مگر جو بدی سامریہ کے شاہی خاندان میں گھر کر چکی تھی وہ کسی طرح نہ نکلی ۔ آخر کار حضرت کی بد دعا سے اخی اب کا گھرانا ختم ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دنیا سے اٹھا لیا ۔ ان واقعات کی تفصیل کے لیے بائیبل کے حسب ذیل ابواب ملاحظہ ہوں : 1 ۔ سالطین ، باب 17 ۔ 18 ۔ 19 ۔ 21 ۔ 2 ۔ سلاطین باب 1 ۔ 2 ۔ 3 ۔ تواریخ باب 21 ۔
حضرت الیاس علیہ السلام ۔ بعض کہتے ہیں الیاس نام تھا حضرت ادریس علیہ السلام کا ۔ وہب کہتے ہیں ان کا سلسلہ نسب یوں ہے الیاس بن نسی بن فحاص بن عبراز بن ہارون بن عمران علیہ السلام ۔ خرقیل علیہ السلام کے بعد یہ نبی اسرائیل میں بھیجے گئے تھے وہ لوگ بعل نامی بت کے پجاری بن گئے تھے ۔ انہوں نے دعوت اسلام دی ان کے بادشاہ نے ان سے قبول بھی کرلی لیکن پھر مرتد ہو گیا اور لوگ بھی سرکشی پر تلے رہے اور ایمان سے انکار کر دیا آپ نے ان پر بددعا کی تین سال تک بارش نہ برسی ۔ اب تو یہ سب تنگ آ گئے اور قسمیں کھا کھا کر اقرار کیا کہ آپ دعا کیجئے بارش برستے ہی ہم سب آپ کی نبوت پر ایمان لائیں گے ۔ چنانچہ آپ کی دعا سے مینہ برسا ۔ لیکن یہ کفار اپنے وعدے سے ٹل گئے اور اپنے کفر پر اڑ گئے ۔ آپ نے یہ حالت دیکھ کر اللہ سے دعا کی کہ اللہ انہیں اپنی طرف لے لے ۔ ان کے ہاتھوں تلے حضرت یسع بن اخطوب پلے تھے ۔ حضرت الیاس کی اس دعا کے بعد انہیں حکم ملا کہ وہ ایک جگہ جائیں اور وہاں انہیں جو سواری ملے اس پر سوار ہو جائیں وہاں آپ گئے ایک نوری گھوڑا دکھائی دیا جس پر سوار ہوگئے اللہ نے انہیں بھی نورانی کر دیا اور اپنے پروں سے فرشتوں کے ساتھ اڑنے لگے اور ایک انسانی فرشتہ زمینی اور آسمانی بن گئے ۔ اس کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے ۔ ہے یہ بات اہل کتاب کی روایت سے حضرت الیاس نے اپنی قوم سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں ہو؟ کہ اس کے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہو؟ اہل یمن اور قبیلہ ازوشنوہ رب کو بعل کہتے تھے ۔ بعل نامی جس بت کی یہ پوجا کرتے تھے وہ ایک عورت تھی ۔ ان کے شہر کا نام بعلبک تھا تو اللہ کے نبی حضرت الیاس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ تعجب ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو خالق کل ہے اور بہترین خلاق ہے ایک بت کو پوج رہے ہو؟ اور اس کو پکارتے رہتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تم سب کا اور تم سے اگلے تمہارے باپ دادوں کا رب ہے وہی مستحق عبادت ہے اس کے سوا کسی قسم کی عبادت کسی کے لائق نہیں ۔ لیکن ان لوگوں نے اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صاف اور خیر خواہانہ نصیحت کو نہ مانا تو اللہ نے بھی انہیں عذاب پر حاضر کر دیا ، کہ قیامت کے دن ان سے زبردست باز پرس اور ان پر سخت عذاب ہوں گے ۔ ہاں ان میں سے جو توحید پر قائم تھے وہ بچ رہیں گے ۔ ہم نے حضرت الیاس علیہ السلام کی ثناء جمیل اور ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی ہی رکھا کہ ہر مسلم کی زبان سے ان پر درود و سلام بھیجا جاتا ہے ۔ الیاس میں دوسری لغت الیاسین ہے جیسے اسماعیل میں اسماعین بنو اسد میں اسی طرح یہ لغت ہے ۔ ایک تمیمی کے شعر میں یہ لغت اس طرح لایا گیا ہے ۔ میکائیل کو میکال اور میکائین بھی کہا جاتا ہے ۔ ابراہیم کو ابراہام ، اسرائیل کو سزائیں ، طور سینا کو طور سے سینین ۔ غرض یہ لغت عرب میں مشہور و رائج ہے ۔ ابن مسعود کی قرأت میں سلام علی ال یاسین ہے ۔ بعض کہتے ہیں اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ہم اسی طرح نیک کاروں کو نیک بدلہ دیتے ہیں ۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھے ۔ اس جملہ کی تفسیر گذر چکی ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔