Surah

Information

Surah # 38 | Verses: 88 | Ruku: 5 | Sajdah: 1 | Chronological # 38 | Classification: Makkan
Revelation location & period: Middle Makkah phase (618 - 620 AD)
صٓ‌ وَالۡقُرۡاٰنِ ذِى الذِّكۡرِؕ‏ ﴿1﴾
صٓ! اس نصیحت والے قرآن کی قسم ۔
ص و القران ذي الذكر
Sad. By the Qur'an containing reminder...
Suaad! Iss naseehat walay quran ki qasam.
ص ۔ ( ١ ) قسم ہے نصیحت بھرے قرآن کی ۔
اس نامور قرآن کی قسم ( ف۲ )
ص1 ، قسم ہے نصیحت بھرے 2 قرآن کی ،
ص ( حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ) ، ذکر والے قرآن کی قسم
سورة صٓ حاشیہ نمبر :1 اگرچہ تمام حروف مقطعات کی طرح ص کے مفہوم کا تعین بھی مشکل ہے ، لیکن ابن عباس اور ضحاک کا یہ قول بھی کچھ دل کو لگتا ہے کہ اس سے مراد ہے صادقٌ فی قولِہٖ ، یا صَدَق محمدٌ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم صادق ہیں ، جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں ۔ صاد کے حروف کو ہم اردو میں بھی اسی سے ملتے جلتے معنی میں استعمال کرتے ہیں ۔ مثلاً کہتے ہیں میں اس پر صادر کرتا ہوں ، یعنی اس کی تصدیق کرتا ہوں ، یا اسے صحیح قرار دیتا ہوں ۔ سورة صٓ حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں ذی الذکر ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ۔ ایک ذی شرف ، یعنی قرآن بزرگ ۔ دوسرے ذی ا لتذکیر ، یعنی نصیحت سے لبریز قرآن ، یا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والا اور غفلت سے چونکانے والا قرآن ۔
حروف مقطعات جو سورتوں کے شروع میں آتے ہیں ان کی پوری تفسیر سورہ بقرہ کے شروع میں گذر چکی ہے ۔ یہاں قرآن کی قسم کھائی اور اسے پند و نصیحت کرنے والا فرمایا ۔ کیونکہ اس کی باتوں پر عمل کرنے والے کی دین و دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور آیت میں ہے ( لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكُمْ كِتٰبًا فِيْهِ ذِكْرُكُمْ ۭ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ 10۝ۧ ) 21- الأنبياء:10 ) اس قرآن میں تمہارے لئے نصیحت ہے اور یہ بھی مطلب ہے کہ قرآن شرافت میں بزرگ عزت و عظمت والا ہے ۔ اب اس قسم کا جواب بعض کے نزدیک تو ( اِنْ كُلٌّ اِلَّا كَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ 14؀ۧ ) 38-ص:14 ) ، ہے ۔ بعض کہتے ہیں ( اِنَّ ذٰلِكَ لَحَــقٌّ تَخَاصُمُ اَهْلِ النَّارِ 64؀ۧ ) 38-ص:64 ) ، ہے لیکن یہ زیادہ مناسب نہیں ملعوم ہوتا ۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا جواب اس کے بعد کی آیت ہے ۔ ابن جریر اسی کو مختار بتاتے ہیں ۔ بعض عربی داں کہتے ہیں اس کا جواب ص ہے اور اس لفظ کے معنی صداقت اور حقانیت کے ہیں ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ پوری سورت کا خلاصہ اس قسم کا جواب ہے ۔ واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے یہ قرآن تو سراسر عبرت و نصیحت ہے مگر اس سے فائدہ وہی اٹھاتے ہیں جن کے دل میں ایمان ہے کافر لوگ اس فائدے سے اس لئے محروم ہیں کہ وہ متکبر ہیں اور مخالف ہیں یہ لوگ اپنے سے پہلے اور اپنے جیسے لوگوں کے انجام پر نظر ڈالیں تو اپنے انجام سے ڈریں ۔ اگلی امتیں اسی جرم پر ہم نے تہ و بالا کر دی ہیں عذاب آ پڑنے کے بعد تو بڑے روئے پیٹے خوب آہو زاری کی لیکن اس وقت کی تمام باتیں بےسود ہیں ۔ جیسے فرمایا ( فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا هُمْ مِّنْهَا يَرْكُضُوْنَ 12۝ۭ ) 21- الأنبياء:12 ) ہمارے عذابوں کو معلوم کر کے ان سے بچنا اور بھاگنا چاہا ۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا ؟ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اب بھاگنے کا وقت نہیں نہ فریاد کا وقت ہے ، اس وقت کوئی فریاد رسی نہیں کر سکتا ۔ چاہو جتنا چیخو چلاؤ محض بےسود ہے ۔ اب توحید کی قبولیت بےنفع ، توبہ بیکار ہے ۔ یہ بےوقت کی پکار ہے ۔ لات معنی میں لا کے ہے ۔ اس میں ت زائد ہے جیسے ثم میں بھی ت زیادہ ہوتی ہے اور ربت میں بھی ۔ یہ مفصولہ ہے اور اس پر وقف ہے ۔ امام ابن جریر کا قول ہے کہ یہ ت حین سے ملی ہوئی ہے یعنی ولاتحین ہے ، لیکن مشہور اول ہی ہے ۔ جمہور نے حین کو زبر سے پڑھا ہے ۔ تو مطلب یہ ہو گا کہ یہ وقت آہو زاری کا وقت نہیں ۔ بعض نے یہاں زیر پڑھنا بھی جائز رکھا ہے لغت میں نوص کہتے ہیں پیچھے ہٹنے کو اور بوص کہتے ہیں آگے بڑھنے کو پس مقصد یہ ہے کہ یہ وقت بھاگنے اور نکل جانے کا وقت نہیں واللہ الموفق ۔